پرویز یعقوب مدنی خادم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال
بلا شبہ روزہ عبادات میں سب سے افضل اور اطاعت کے کاموں میں سب سے اہم کام ہے بہت سارے دلائل سے اس کی فضیلت واضح ہوتی ہے اور اس کے عظیم اجر و ثواب کا پتہ چلتا ہے روزے کے فضائل درج ذیل ہیں:
نمبر ایک
یہ روزہ گناہوں کی مغفرت اور برائیوں کے مٹانے کا سبب ہے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ “.
جو ایمان کی حالت میں اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
اس کا معنی یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی پر کامل ایمان رکھے، اس کے اوپر جو روزہ فرض کیا گیا ہے اس پر راضی بھی رہے اور اس کے اجر و ثواب کی امید رکھے اس کی فرضیت کو ناپسند نہ کرے نہ ہی اس کے اجر و ثواب میں شک کرے تو اللہ تعالی اس کے پچھلے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ مَا لَمْ تُغْشَ الْكَبَائِرُ “.
پانچوں وقت کی نمازیں اور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک یہ ساری چیزیں اپنے درمیان کے گناہوں کو مٹا دیتی ہیں جب کبائر یعنی کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔
نمبر دو
روزے کے ثواب کی کوئی حد نہیں ہے نہ ہی اس کی کوئی مقدار متعین ہے، اسے کسی گنتی میں محدود نہیں کیا گیا ہے بلکہ روزے دار کو اس کا بے حساب ثواب دیا جاتا ہے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : الصَّوْمُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَأَكْلَهُ وَشُرْبَهُ مِنْ أَجْلِي، وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ ، وَلِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ : فَرْحَةٌ حِينَ يُفْطِرُ، وَفَرْحَةٌ حِينَ يَلْقَى رَبَّهُ، وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ “.
اللہ رب العالمین فرماتا ہے کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہوتا ہے سوائے روزے کے وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور یہ روزہ ایک ڈھال ہے تو جب تم میں سے کسی کا روزہ رہے تو وہ فحش کاموں میں نہ پڑے اور نہ ہی جھگڑا و لڑائی کرے یا ہنگامہ کرے اگر اس سے کوئی شخص گالی گلوچ کرے یا لڑائی کرے تو کہے کہ میں تو روزے سے ہوں اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالی کے نزدیک قیامت کے دن مشک کے بو سے زیادہ بہتر ہے اور روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہوتی ہیں جن سے وہ خوشی محسوس کرتا ہے جب وہ افطار کرتا ہے تو افطار پہ خوش ہوتا ہے اور جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے سے خوش ہوگا اور مسلم کی ایک روایت میں ہے:
كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : إِلَّا الصَّوْمَ، فَإِنَّهُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ، وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِي
ابن آدم کا ہر عمل کئی گنا بڑھا کردیا جاتا ہے ایک نیکی 10 گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے سوائے روزے کے کیونکہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا انسان اپنی خواہشات کی چیزوں کو اور اپنے کھانے کو میری خاطر چھوڑتا ہے۔
نمبر تین
روزہ وہ مخصوص عمل ہے جسے تمام اعمال میں سے اللہ رب العالمین نے اپنے لیے خاص کیا ہے وہ تمام اعمال جنہیں بندے انجام دیتے ہیں اور یہ اس روزے کی فضیلت ظاہر کرتا ہے اور اللہ تعالی کے نزدیک روزے دار کے شرف اس کے مقام اور اللہ تعالی کے لیے بندے کی محبت اور اللہ تعالی کی خاطر بندے کے خلوص کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ روزہ وہ مخفی عمل ہے جو بندے اور رب کے درمیان ایک راز رہتا ہے اس سے صرف اللہ تعالی واقف ہوتا ہے کیونکہ واجب روزہ رکھنے والا تنہا مقام پر لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے روزہ کی حالت میں اللہ تعالی نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے انہیں استعمال کرنے پر قادر ہوتا ہے لیکن استعمال نہیں کرتا اگرچہ اسے دنیا کی بہت ساری چیزیں دے دی جائیں کیونکہ روزے دار کو پتہ رہتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو اس کی خلوتوں سے بھی واقف ہے اور اللہ رب العالمین نے اس کو حرام قرار دے رکھا ہے چنانچہ اللہ کی سزا سے ڈر کر اور اس کے ثواب کی امید رکھتے ہوئے قدرت کے باوجود انسانوں سے چھوڑ دیتا ہے اسی لیے اللہ رب العالمین بندے کے اس اخلاص کی قدر کرتا ہے اور اس کے تمام اعمال میں سے روزے کے عمل کو اپنے لیے خاص کر لیتا ہے اسی لئے ہیں اللہ تعالی کہتا ہے کہ بندہ اپنی خواہشات کی چیزوں کو اور اپنے کھانے کو میری خاطر چھوڑ رہا ہے۔
بعض اسلاف کہا کرتے تھے خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جو موجود خواہشات کو چھوڑ دے ایسے غیبی وعدے کی بنا پر جسے اس نے دیکھا ہی نہیں ہے۔
ایک روزہ دار بندۂ مومن شخص دیکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اس کے آقا کی رضا اس کے مالک کی خواہش اس کی اپنی خواہشات کو چھوڑنے میں ہے تو وہ اپنے رب کی رضا کو اپنی خواہشات پر مقدم کرتا ہے اسے اپنی خواہشات کو اللہ کی خاطر چھوڑنے میں لذت محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس کا ایمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ہمارا یہ عمل دیکھ رہا ہے اس سے واقف ہے اور اس کا ایمان ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمین کی جانب سے ملنے والا ثواب اور اس کی جانب سے ہونے والی سزا اس لذت سے بڑھ کر ہے جسے انسان تنہائی میں حاصل کرے گا چنانچہ وہ اپنی خواہش پر رب کی رضا کو ترجیح دیتا ہے بلکہ بندۂ مومن اس چیز کو اپنی خلوت میں اس سے زیادہ ناپسند کرتا ہے جتنا وہ مار پیٹ کے تکلیف کو ناپسند کرتا ہے۔
نمبر چار
یہ روزہ ڈھال ہے یعنی بچنے کا سامان ہے آڑ ہے پردہ ہے، یہ روزہ آدمی کو لغو کاموں سے اور فحش کاموں سے بچاتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
فإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ
جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو فحش کاموں میں نہ پڑے اور نہ ہی لڑائی جھگڑا کرے۔
اسی طرح سے یہ روزہ انسان کو قیامت کے دن اللہ تعالی کی اجازت سے جہنم سے بچائے گا جیسے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ حسن سند کے ساتھ جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” إِنَّمَا الصِّيَامُ جُنَّةٌ ، يَسْتَجِنُّ بِهَا الْعَبْدُ مِنَ النَّارِ
روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعے بندہ جہنم کی آگ سے بچتا ہے۔
نمبر پانچ
روزے دار کے منہ کی بو اللہ تعالی کے نزدیک مشک کی بو سے زیادہ پاکیزہ ہوتی ہے کیونکہ منہ کا بو بدل جانا یہ روزے کے آثار میں سے ہے چنانچہ اس کی وجہ سے یہ بو اللہ تعالی کے نزدیک پاکیزہ اور محبوب ہو جاتی ہے اور اسی سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک روزے کی کتنی عظیم اہمیت ہے یہاں تک کہ لوگوں کے نزدیک ناپسندیدہ چیز بھی اللہ کے نزدیک پسندیدہ اور پاکیزہ ہو جاتی ہے کیونکہ وہ ناپسندیدہ چیز روزہ جیسے اطاعت کے کام سے پیدا ہوتی ہے
نمبر چھ
روزے دار کو دو دو خوشیاں نصیب ہوتی ہیں ایک افطاری کے وقت خوشی اور ایک رب سے ملاقات کے وقت کی خوشی جیسے کہ ابھی ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں نے آپ لوگوں کو سنائی ہے افطاری کے وقت جو خوشی ہوتی ہے تو اللہ کا بندہ اللہ تعالی کی اس نعمت پر خوش ہوتا ہے کہ اللہ رب العالمین نے اسے روزہ جیسی عظیم عبادت ادا کرنے کی توفیق دی وہ روزہ جو اس کے نزدیک افضل ترین اعمال میں سے ہے۔ جب کہ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو روزہ جیسی نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں روزہ نہیں رکھ پاتے اور اسی طرح سے بندہ اس کھانے پینے اور بیوی سے قربت وغیرہ کی نعمتوں سے خوش ہوتا ہے جو اللہ رب العالمین نے اس کے لیے حلال کر دیا ہے جو روزے کے دوران حرام تھا۔
اسی طرح بندۂ مومن کی خوشی رب سے ملاقات کے وقت بھی ہوگی وہ بندہ اپنے روزے سے خوش ہو جائے گا جب رب سے ملاقات کے وقت وہ اپنے روزے کا ثواب بہت زیادہ وافر مقدار میں اور کامل ترین پائے گا وہ بھی ایسے وقت میں جب اس کو اس ثواب کی سب سے زیادہ ضرورت رہے گی یعنی قیامت کے دن جیسے کہ سھل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ : الرَّيَّانُ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، يُقَالُ : أَيْنَ الصَّائِمُونَ ؟ فَيَقُومُونَ لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ “.
جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے اس سے قیامت کے دن صرف روزے دار داخل ہوں گے روزے داروں کے علاوہ ان کے ساتھ کوئی اور نہیں داخل ہوگا کہا جائے گا روزے دار کہاں ہیں تو وہ اس میں سے داخل ہوں گے۔ جب آخری روزہ دار داخل ہو جائے گا تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر کوئی اس میں سے داخل نہیں ہو سکتا۔
نمبر سات
روزہ خون کے دوران کو تنگ کر دیتا ہے انسان کی وہ رگیں جو شیطان کی گزرگاہ ہوتی ہیں کیونکہ شیطان ابن ادم کے خون کی طرح رگوں میں دوڑتا ہے چنانچہ روزے کی حالت میں شیطانی وسوسے کم ہو جاتے ہیں شہوت اور غصہ کم ہو جاتا اور کمزور پڑ جاتا ہے اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کو شہوتوں کو توڑنے والا قرار دیا ہے کیونکہ روزہ نکاح اور جنسی تعلق کی خواہش کو کم کر دیتا اور روک دیتا ہے جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی مشہور روایت صحیحین میں موجود ہے۔
نمبر آٹھ
مالدار اور بے نیاز شخص جس کے پاس ہر وہ چیز ہوتی ہے جو وہ کھاتا اور پیتا ہے وہ اللہ تعالی کی نعمت کی قدر جانتا ہے کھانے پینے کی وہ نعمت جو اللہ تعالی نے اسے عطا کی ہے جس سے بہت سارے فقراء محروم رہ جاتے ہیں چنانچہ مخصوص اوقات میں کھانے پینے سے رک کر اور اس رکنے کی بنا پر پریشانی اور جو مشقت لاحق ہوتی ہے اس کی بنا پر مالدار انسان اس شخص کو یاد رکھتا ہے جو مطلقا ہر وقت اور مستقلا کھانے پینے کی نعمتوں سے محروم رہتا ہے چنانچہ ایسا انسان فقراء کی محتاجگی کو یاد کر کے مالداری کی نعمت پر اللہ تعالی کا شکریہ ادا کرتا ہے اور یہ احساس انسان کو اپنے محتاج بھائی پر رحم کرنے پر ابھارتا ہے اس کے غم خواری پر ابھارتا ہے جو اس کے امکانات میں ہو۔
بھائیو یہ روزے کے بعض فضائل ہیں چنانچہ روزے دار پر لازم ہے کہ روزے کی واجبات اس کے سنن اور اس کے آداب کو ادا کرے اس کے حدود کی رعایت کرے اور روزہ باطل کرنے والی روزے کے ثواب کو کم کرنے والی چیزوں سے اجتناب و پرہیز کرے اور دور رہے تاکہ اس کے روزے سے وہ فوائد مقاصد اور حکمتیں حاصل ہو سکیں جس کی خاطر یہ روزہ مشروع قرار دیا گیا ہے اور یہ کون سی چیز ہے اللہ کا تقوی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ} [البقرة : 183]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو تمہارے اوپر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ
و صلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین