نوراللہ خان
ہمارے طرزعمل کی خیر وبرکت سے سب کو فائدہ ہونا چاہئے۔ اور کردار کی خوشبو سے سماج کو معطر ہونا چاہئے۔ ورنہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ عرب کے بجائے عجم سے کعبہ کے پاسبان لے آتا ہے۔ تقوی کو بلندی اور عظمت کا معیار بنایا گیا ہے۔ اس لئے ہمیں اس اصول کو سامنے ضرور رکھنا چاہئے۔
آپ کو پلاننگ آتی ہے تو آپ سلمان فارسی بن سکتے ہیں۔ اور صلاحیت کے ساتھ صالحیت ہے تو آپ اذان بلالی کے لئے مؤذن بن کر منتخب ہو سکتے ہیں۔ تقریر اچھی تو جعفر طیار بنکر وفد کی نمائندگی پاسکتے ہیں۔ اس لائق تھے تو اللہ نے چوالیس ممالک دیئے اور تین براعظم کا حکمران بنایا تھا۔ اور دنیا کے دو سُپر پاور قیصر وکسری قدم بوسی کرتے تھے۔
لیکن تب ہم اچھے اور انصاف پسند پردھان تھے۔ ہماری پردھانی میں شیر اور بکریاں ساتھ پانی پیتے تھے اور ہم اس قدر نیک تھے کہ وراثت دیتے تھے اور جہیز کے بجائے ایسی بہو لاتے تھے جو لڑکی کم ظرف ماں کے اصرار کے باوجود رات کی تاریکی میں بھی دودھ میں پانی نہیں ملاتی تھی۔
ہم واقعی اس وقت خیراللہ اور خیر الدین تھے۔ اور ہم دینے والا ہاتھ رکھتے تھے۔ ظلم کے سامنے کھڑے ہوتے تھے اور سب کا خیال رکھتے تھے اور ہیبت بھی تھی اس لئے عمر فاروق صرف گئے تھے بلکہ آپ کو بلاکر بیت المقدس کی چابی دی گئی تھی۔ ہم پڑھتے تھے تو اہل کتاب سے آگے صاحب کتاب بن جاتے تھے۔ ہم ہائی اسکول فیل ہونے لگے تو ہمارا داؤد خان اب شطرنج کھیل رہا ہے اور دوسری طرف ڈیوڈ تھامس ہم سے فوٹو کاپی کرکے ہمارے کالجز کے نصاب میں اپنی کتابیں داخل نصاب کررہا ہے۔ ہماراشاگرد ہم سے آگے نکل گیا ہے۔
ہم صحرا ہی نہیں دریاؤں میں گھوڑے دوڑاتے تھے اور ندی پار نہیں کرتے تھے بلکہ کشتیاں جلاکر پیچھے کے آپشن کو ختم کردیتے تھے۔ اس لئے ہم خیر امت تھےکہ ہم صاحب نصاب بنکر صاحب استحقاق کو زکات دیتے تھے اور اب ہم صاحب نصاب ہوکر نصابی کتابیں بھی مفت لتے ہیں اور اور وہ محنت سے پڑھنا نہیں چاہتے ہیں۔ لیکن ہم اس وقت پڑوسی کو شوربہ پہونچاتے تھے۔ اور اب اس قدر بے بس اور گندے ہوگئے کہ شوربہ اسکے فلیٹ کے سامنے انڈیل دیتے ہیں۔