نوراللہ خان
قرن اول میں غزوہ خندق کے منصوبہ ساز ، میثاق مدینہ کے نام سے معروف سب سے پہلے عالمی منشور کے سکریٹری، جنگی ماہرین، حقوق انسانی کے علمبردار کے کاتب سمیت نجران کے یہود کیلئے سفیر، تجارت کے ماہرین ، فقہ اور علوم قرآن سمیت علوم حدیث کے بحر ذخار وغیرہ سب ایک جگہ پڑھتے تھے۔مگر وقت گزرا اور علم کی تفریق نے ملت بانٹا اور امت کو بہت نقصان پہونچایا ۔
مغرب کی گویا خواہش تھی اور بعض لوگوں کے خیال کے مطابق یہ عین مغربی سازش تھی کہ ان کو قرآن کے اندر معلومات کے بجائے اور اس عظیم دستور زندگی اور علمی سمندر سے ان کو دور کیا جائے۔ اور وہ کامیاب ہوگئے۔ اور ادھر کچھ جہلاء نے اپنی مکاری کے سبب عارضی خوشی میں مبتلا ہوکر قوم کو تباہی میں ڈال دیا۔ قرآن پڑھنے ہی نہیں دیا۔ کرامات میں گھماتے رہے۔ نجومیوں کے سامنے لائن میں لگادیا۔ اور تدبیر سکھانے کے بجائے تقدیر کی لکیریں سیدھی کرنے میں باباؤں کا چکر لگوادیا۔
اسلام نے علم کی بات کی ہے۔ گویا وہ علم ضروری ہے جس سے خدا شناسی اور خود شناسی ہو اور جو نافع نہ ہو وہ علم نہیں ہے۔ بلکہ اس بچتے ہوئے تربیت کا اضافہ کیا اور صلاحیت کے ساتھ صالحیت پر زوردیا ۔ جائز اور ناجائز کی لکیر کھینچ کر اسلام نے ہر غیر نافع کو مضر بتایا اور منع کیا چاہے کوئی کام یا علم دین کے نام پر ہی ہو اگر وہ دھوکہ دہی سے عبارت ہے تو وہ ممنوع ہے۔
خدا شناسی کے بعد اسکے تقاضے کیسے پورے ہوں گے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اسے سمجھا جائے۔ جولوگ گوشہ نشینی کو اسلام مانتے ہیں اور راہبوں جیسا مزاج لیکر اسلام کو محدود دائرے میں بند کرکے دیکھتے ہیں ان سے سوال ہے کہ اسلام میں داخلے کے بعد جو تقاضے ہیں وہ کیسے پورے ہوں گے۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ علم نافع کے ساتھ ہی ممکن ہیں۔ اس بدلتی دنیا میں جو ترقیاتی فکر و فلسفہ سے دور رہے گا اسے منگول آکر پیٹ کر چلے جائیں گے۔اسلام خود ایک ترقی یافتہ اور ترقی پسند دین اور فطری نظام زندگی ہے۔ اس لئے ہمیں خود آگے دوسروں کو اپڈیٹ کرنا ہے ۔ اسکا ہر پلان نفع بخش اور مکمل انسانیت نواز ہے۔ اسلام نماز کیلئے جانے کا حکم دیتے ہوئے اس بات کا بھی خیال رکھتا ہے کہ نماز ختم کرکے تمھیں منتشر بھی ہونا ہے تاکہ تم رزق تلاش کرو۔ اور بتایا کہ تم خیر امت ہو تمھیں خیرات بانٹنا ہے اس لئے بانٹنے لائق بنو۔
پہاڑوں ، جنگلوں، اونٹ کا سفر، دریاؤں اور کشتیوں کا بھی قرآن میں ذکر ہے۔ پہاڑوں اور سمندروں میں رزق ہے۔ سیروسیاحت اسی سے ہے۔ اس میں رزق بھی ہے صحت بھی ہے اور اللہ کی عظمت کی نشانیاں بھی ہیں۔ یہ تفصیلات اللہ نے کائنات کے سلسلے میں دی ہیں تو یہ ہماری ہدایات کے لئے ہیں تاکہ انسانی زندگی میں انسانیت مستفید ہوسکے۔
بھلا کائنات کے اسرارو رموز کیسے جان سکیں گے اگر ہم موجودہ علوم سے عاری ہوں گے جن کو “ دنیاوی علوم “ کہکر مسترد کیا گیا ہے۔ اور جسے متروک بناکر ہم نکما اور کاہل بن گئے۔ اسلام انصاف اور خیر تقسیم کرنے آیا تھا۔ انسانوں کی اس جماعت کو بغیر علم کے کیسے سنبھالا جاسکتا ہے۔ موجودہ غلط سیاست اور معیشت کی بدترین بالادستی کیسے ختم ہو گی اور اصل فطری نظام الٰہی کیسے قائم ہوگی ، اس میں ضروری ہے کہ انصاف ہو اور تمام انسانوں کے مفاد کا خیال رکھا گیا ہو ، نہ نظام اعلیٰ تعلیم کے بغیر ناممکن العمل ہے۔
ظاہر سی بات ہے ان کی ہمہ جہت ترقی کیلئے اور ایسے نظام کے نفاذ کےلئے ماہر ترین افراد کی ضرورت ہے جو موجودہ دنیاوی زندگی کا بھی علم رکھتے ہوں اور نئے ترقیاتی کاموں سے واقف ہوں۔ نیز طبی ، سماجی، تعلیمی اور دیگر ضروریات سے آشنا ہوں تبھی ایک مثالی سماج کی تشکیل ممکن ہوگی۔
قرن اول اس لحاظ سے کماحقہ درست اور مکمل تھا اور تقاضوں کے عین مطابق چل رہا تھا۔ یہی وہ اسباب تھے کہ دنیا ہم سے مدد مانگ کر ظالموں سے نجات تلاش کرتی تھی۔ ہم انصاف پسند تھے۔ مفید تھے۔ دینے والے تھے۔ ترقی کے منازل طے کررہے تھے۔ ہم نے علم طبعیات اور علم کیمیا سمیت علوم جغرافیہ دیا۔ سائنس اور تاریخ کے اسباق پڑھائے۔ بحروبر میں ہمارے جلوے تھے۔ ہم مسجد میں بھی تھے اور دشت وصحراء سمیت دریاؤں کو بھی سر کررہے تھے۔ ہم نے جب سے خود کو جمعہ والا مسلمان بنالیا۔ مسلکی گروہ بندی میں چلے گئے اور اسلامی فکر کے بجائے ہم مسلکی فکر کے رسیا ہوگئے اور جب سے اسلام میں لوگوں کو بلانے کے بجائے بھگانے کا مزاج آیا اور جب سے ہم مسجد میں بلانے کے بجائے لوگوں کو اپنی مسجد سے دور رکھنے کا رواج آیا تب سے ہم ذلیل وخوار ہورہے ہیں۔
اب ضرورت ہے کہ ہم بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ اعلیٰ تعلیمی مراحل کو یقینی بنائیں۔ اور جو امامت اور دینی علوم سے اختصاص چاہیں وہ اس میں آگے بڑھیں مگر علم کی تفریق کرکے ملت کو برباد نہ کیا جائے۔ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ ۔۔۔ ۔۔۔۔ اسے سامنے رکھتے ہوئے ہم علم نافع کا عظیم تصور سامنے لائیں اور ترقی کریں۔ سماج میں علم دین اور علم دنیا کی اس نامعقول تفریق نے ماسٹر اور مولوی پیدا کردیئے جو کہ ملت کیلئے فیض یابی کے بجائے ایک مصیبت کا پیش خیمہ بن گئے۔ ایک کو اسلام بھی ادھورا پتہ چلا اور دوسرے کو صرف سائنس اور دو نوں انسانیت کیلئے نفع بخش نہ بن سکے۔ اور اسلام جو سب کی بھلائی کیلئے آیا تھا اسکے ہی افراد آپس میں دشمن انسانیت دشمن ہوگئے اور اجتماعی ترقی کا فقدان ہوتا چلا گیا۔ آج پھر وہی تصور علم درکار ہے جس میں بحری بیڑہ ساز بھی ہوں اور سائنسی ترقی کے علم بردار بھی ہوں ۔ اور جس طرح ہمارے یہاں پہلے فارابی ، کندی سمیت زہراوی اور بیرونی پیدا ہوئے تھے اسی طرح پھر نئی تاریخ کے اوراق میں ہمارا ذکر ضروری ہے تاکہ ہم ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے دوسری اقوام کا مقابلہ کرسکیں۔