ڈاکٹر قاسم خورشید
سابق ہیڈ لینگویجز ایس سی ای آر ٹی بہار و ماہرِ تعلیم
9334079876
جو بھی سوچنا ہو سمجھنا ہو وہ اہلِ سیاست جانیں مگر اس حقیقت سے کوئی بھی ذی فہم اور ذی شعور ہندوستانی بہرحال انکار نہیں کر سکتا ہے کہ ہم ابھی ایسے بحران سے دو چار ہیں جہاں معاملہ قومی سیاست یا حکمراں کی دسترس میں نہیں ہے اب جو کچھ بھی سرزد ہو رہا وہ بازار واد کا حصہ ہے پہلے سیاست میں اقدار کا بھی دخل ہوا کرتا تھا اب قدروں کو مضحکہ خیزی سے تعبیر کیا جا رہا ہے سوچئے کبھی ہم تصوّر کر سکتے تھے کہ باپو کے قاتلوں کو ہندوستان کا معمار کہا جائے گا باپو جس نے کبھی کسی عہدے کی چاہ نہیں کی جبکہ وہ چاہتے تو لمبے وقت تک ہندوستان کے صدر یا پرائم منسٹر ہو سکتے تھے ذرا سوچئے خود جینوئن بیرسٹر تھے آزادی کے سچے سپوت رہے انگریزوں کی تمام اذیتیں سہہ کر محض اپنی سادگی اپنے علم اپنے ویژن اور مشن سے ہندوستان کو آزاد کروایا گاندھی سماج واد کی سب زیادہ روشن تصویر تھے ان کی تحریک نے جہاں ہندوستان کو آزاد کروایا وہیں ساری دنیا کو بھی متاثر کیا
موجودہ عہد میں جس طرح ہر شعبے میں صحتمند اور زندہ اقدار کا شیرازہ بکھر ا ہے اسی طرح سیاست بھی سماجی فلاح سے زیادہ غیر سماجی احکامات کی نذر ہو گئی ہے نام نہاد ذی فہم اور ذی شعور طبقہ بھی مصلحتاً خاموش ہی نظر آتا ہے جبکہ ایماندار قوموں میں خوف کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا ہے کسی بھی مذہب کا سچا پیروکار انسان اور انسان کے رشتے کو محبت بھائی چارے اخوت کے بنیادی وصف کو روشن رکھنے پر ہی ایمان رکھتا ہے اپنی زمین سے محبت ہی ملک سے محبت ہے آج ہم ہے وجہ اپنے بہترین سماج سے دور ہوتے جا رہے ہیں ہمیں قطعی طور پر یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہونی چاہیے کہ اپنے ملک سے کتنی محبت کرتے ہیں ہمارے اجداد نے جہاں قربانیاں دی ہیں ہم نے ان کے خواب کی تعبیر کو زندہ و تابندہ رکھا ہے
توڑنے والی طاقت ہر دور میں رہا کی ہیں مگر زمینی تحقیق کے بعد بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان تعداد بہ بات ہی کم ہوتی ہے سچے لوگوں کو کچھ بھی ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی جھوٹے لوگوں کا فضائی نیٹ ورک بڑا ہوتا ہے اور اکثر معصوم قومیں بھی ان کی زد میں آجاتی ہیں چونکہ اب ماحول راجہ ہریش چندر کا نہیں بلکہ دنیا پر ہی اپنی جنت قائم کرنے والے شدّاد کا ہے اس لیے سوئی ہوئی قومیں بھی اکثر مزید غنودگی میں چلی جاتی ہیں اور اکثر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ
جھوٹ مشہور ہوا راجا کا
سچ کی بازار میں شہرت نہ ہوئی
مگر یہ بھی زندہ حقیقت ہے کہ وقت تاریخ دہراتا ہے اور دیکھتے ہے دیکھتے یہ وضاحت بھی ہو جاتی ہے کہ
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
اس لیے ضرورت یہ بھی ہوتی ہی ہے کہ
صلیب دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک بھی ستم کی سیہہ
رات چلے
ظاہر ہے کہ ظلم تشدد ہے راہ روی کج روی اور جھوٹ کے سامنے خامشی بھی گناہِ کبیرہ سے کم نہیں صحت مند اقدار ملک و قوم کی تعمیر جس طرح ہمارے فرائض میں شامل ہیں اسی طرح تخریب نفرت اور تشدد سے ملک کو آزاد کروانا بھی ہمارا قومی و ملی فریضہ ہے اگر مقصد تعمیری ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں کامیابی نہ ملے ایک زمانہ تھا جب مٹھی بھر لوگوں نے بہت بڑی طاقت کے سامنے محض اپنے عزم پر یقین رکھتے ہوئے ملک کو آزاد کروانے کا فیصلہ کیا تھا اور نامساعد حالات کے باوجود لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا اور وہ عزم ایک دن ہندوستان کا پرچم بلند کر گیا۔
آج ویسے حالات نہیں ہیں بلکہ ہمیں سچے سربراہ کی ضرورت ہے جو ہمارے دل کی آواز پر لبیک کہے اسی لیے جب ملک کے ایسے حالات میں جب بڑی آبادی محسوس کر رہی ہے کہ اس کی زندگی کا سرمایہ بہت بے اعتنائی سے ایک مخصوص کلاس کی نذر کر دیا گیا اب چاہ کر بھی کوئی فیصلہ ہمارے حق میں نہیں ہو سکتا جھوٹ کا خواب بھی مضمحل ہو گیا ہے تو ظاہر ہےاپنے مناسب حق کے تحفظ اور حصہ داری کے لیے مل ج±ل کر ایک طاقت بنانی ہوگی تاکہ خود بحال ہوں اور ملک کی روایتی سالمیت لوٹ سکے بہت ہی مایوس کن دور میں جب بہار کے ہر دلعزیز وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھارت جوڈو کے نیک مقصد کی تکمیل کے لیے صحتمند افکارِ کے رہنماو?ں سے ملے تو ملک کی سب سے بڑی مایوس آبادیوں میں امیدوں کے چراغ ایک ساتھ روشن ہو گئے ہمارے سربراہ در اصل عوام کے نمائندے ہوا کرتے ہیں ان کی آواز فردِ واحد کی آواز نہیں ہوتی بلکہ وہ بڑی آبادی کی آواز بن کر ابھرتے ہیں اسی لیے دوسری متاثر آبادیوں کے چہرے بھی روشن ہو جاتے ہیں چونکہ نتیش کمار کی تمام زندگی سماج واد کے استحکام کے لیے وقف رہی ہے اور اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سماجی فلاح ہی ان کا بنیادی وصف رہا ہے سیاست میں اگر عوام کی بنیادی ضرورتوں , ان کے جذبات اور حقوق کے لیے جو سر براہ وقف ہوتا ہے وہ ایک وقت آنے پر ہر مکتبہ فکر کا آئیڈیل بن جاتا ہے گاندھی جی کے بعد فعال سیاست میں رہنے والے لیڈران بھی قومی مفاد کے معاملے میں سبھوں کے آئیڈیل رہے ہیں چاہے جواہر لال نہرو ہوں سردار پٹیل ہوں ابوالکلام آزاد ہوں اندرا گاندھی ہوں اٹل بہاری باجپئی جیے پرکاش ناراین جارج فرنانڈس اور ایسے ہی دوسرے لیڈران ہوں ، کوئی صحت مند سوچ ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی ایک وقت آیا کہ یہ رہنما ان کے بھی آئیڈیل رہے جنہوں ووٹ نہیں دیا تھا ہندوستانی جمہوریت میں وہی زندہ رہے ہیں جن کا مقصد بلا تفریق ملک و قوم کی خدمت رہی ہے آج بنا کسی عامیانہ سیاست کے آپ سوچیں تو نتیش کمار صرف فلاحی کاموں کے لیے ہی یاد کیے جاتے ہیں _ کیسے صوبے یا ملک کی ترقی میں اپنی خدمات دیں وہ یہی سوچتے اور کرتے رہے ہیں ان کا سلوگن مشہور ہوا تھا کہ سیاست سیوا کے لیے ہے میوہ کے لیے نہیں۔پوری زندگی آئینے کی طرح ہے چاہتے تو بہترین اور عالیشان زندگی جی سکتے تھے مگر اس فکر سے جب عملی طور پر وہ آگے چلے گئے تو ایک ایسا امیج بنا جو عوام کی امید کی روشن تعبیر جیسا ہے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے جب بہار کی تصویر کو سجانے سنوارنے کی کوشش کی تو انہیں جہاں جس سے تعاون ملا خوش دلی سے قبول کیا بہار کی تصویر دیکھتے دیکھتے بدل گئی اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ بہار کو خصوصی صوبے کا درجہ مل جائے بہار کے مفاد میں کہیں کہیں سمجھوتہ بھی کیا مگر وہ بے سود ثابت ہوا مگر وہ اپنے حصار میں بڑے تاریخی کام کرتے رہے مجھے بھی لگ بھگ ایک دہائی تک انکی سر پرستی میں کام کرنے کا موقع ملا چاہے سائیکل یوجنا ہو شراب بندی ہو بہار صد سالہ تقریبات ہو گاندھی یادگاری تقریب ہو بہار دیوس یوم تعلیم انسانی زنجیر یا جہیز سے متعلق پروگرام ہوں ہم نے محسوس کیا کہ انکی تحریک نے ہم سب کو بھی مزیّن کر دیا اور بہار میں کئی تاریخی کام ہو گئے ظاہر ہے فلاحی کاموں کی تحریک پورے ہندوستان میں جاری ہونی چاہیے تاکہ ہندوستان مضبوط ہو کئی صوبوں کے سربراہ اپنے صوبے میں بہتر کام کر رہے ہیں جس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے مگر ملک عوامی سروکار سے زیادہ خواص کا ہو چلا ہے
ایسے وقت میں نتیش کمار جیسے سربراہ کی سماج کو ضرورت تھی جو اس مقصد سے ہندوستان کو جوڑنے نکلا کہ ایک بار پھر یہ ملک اپنے صحت مند اقدار کے قالب میں ڈھل جائے اور کسانوں مزدوروں میں خوشحالی لوٹے بے روزگاروں کو کام ملے سماج سے نفرت دور ہو محبت بھائی چارہ قائم ہو کوئی بھوکا نہ رہے سب کو استطاعت اور حق کے مطابق عزت ملے قانون سب کے لیے برابر ہو دولت چند طاقت ور ہاتھوں کی جگہ عام آدمی کے حصے آئے سب کو صلاحیت کے مطابق پھلنے پھولنے کا موقع ملے ملک کی م±حبت سب سے افضل ہو جو صوبہ پیچھے رہ گیا ہے سب مل کر اسے آگے بڑھائیں قومی دھارے میں لائیں بجلی سڑک پانی پل اور دوسری سہولتیں فراہم ہوں ہر مذہب کی قدر کی جائے اپنے اسلاف کی قربانیوں اور خصائص کو نئی نسلوں میں منتقل کیا جائے
ہندوستان کی بہت ہی زریں روایت رہی ہے یہ ملک کی معاملے میں دنیا کے لیے آئیڈیل رہا ہے یہاں ایسی ایسی صلاحیتیں ا±بھری ہیں جن پر صرف یہ ملک نہیں پوری دنیا ہی فخر کرتی ہے نئے ہندوستان کی تعمیر کے لیے ہندوستان کو جوڑنے کے ساتھ اسے پوری دنیا سے بھی جوڑنا ہوگا تاکہ ہم ایک ایسی عالمی بستی بنا سکیں جہاں ہماری بہترین صلاحیتوں کو اجاگر ہونے کا موقع مل سکے ہم کب تک دوسروں پہ الزام رکھ کر اپنی کمزوریاں چھپاتے رہیں گے کوئی لمبے وقت تک کبھی دنیا میں نہیں رہا مگر اس کی خدمات رہتی دنیا تک رہ سکتی ہیں ابھی اسی فکر کی ضرورت ہے اور یہ کام مشکل بھی نہیں کیونکہ بقیہ کام نئی نسلوں کو کرنا ہے ہم صرف فضا آفرینی ہی کر سکتے ہیں بہترین فکر کے ساتھ اسی لیے نتیش کمار نے صحتمند سوچ کو استحکام عطا کرنے کے لیے کوشش شروع کی ہے بہترین نتائج بھی سامنے آرہے ہیں اور گویا ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ یہ خواب ہر صحتمند رہنما دیکھ رہا تھا ٹھیک وہی ماحول دیکھا جا رہا جو آزادی کے متوالوں کا ہندوستان کی آزادی کے دوران تھا گاندھی جی کے ہندوستان کو ٹوٹنے سے بچانے اور ا?خری شخص تک روشنی پہچانے کے لیے بھارت جوڈو تحریک کے تمام رہنماؤں بشمول نتیش کمار کے لیے نیک خواہشات۔
مِری جاں سے بڑھ کر ہے رنگِ چمن
کہاں ہے کوئی اور گنگ و جمن
یہی ہند ہے میری جاں کی امان
یہی ہند ہے میرا پیارا وطن