January 26, 2025
Hamari Duniya
مضامین

فتنہ شکیلیت بشکل دعوائے مسیحیت و مہدویت کا سد باب کیسے کریں 

Shakil Bin Haneef
محمد فہیم الدین تیمی مدنی
جامعہ امام ابنِ تیمیہ،بہار
رابطہ نمبر - 9661667330

” فتنہ” چاہے کوئی بھی ہو خطرناک ہوتا ہے ۔ شدت اور خطرناکی میں فرق ضرور ہوتا ہے لیکن فتنہ ہر کسی کے لئے ہلاکت و بربادی کا باعث ہے ۔ یہ دین،ایمان اور دیگر چیزوں کے لیے بہت ہی خطرناک ہوتا ہے۔
عبد الرشید طلحہ نعمانی فتنوں کی خطرناکی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : “یہ دور فتنوں کا دور ہے،ہر سمت سے مختلف فتنوں کی یلغار ہے،آج ایک طرف جہاں انٹرنیٹ و سوشل میڈیا کے ذریعے الحاد اور لادینیت کی شورشیں عروج پرہیں،اشکالات اور وساوس پیدا کرکے اسلام کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے ہورہے ہیں،مسلمانوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرکے اسلام بیزار کرنے کی سازشیں رچی جارہی ہیں،وہیں دوسری طرف میدان عمل میں باطل فرقے اور گم راہ جماعتیں پوری تن دہی اورمستعدی کے ساتھ کفر و الحاد کے جال بچھا رہی ہیں،نئی نسل کو راہ حق سے برگشہ کررہی ہیں اور ملت کے متاع دین وایمان پر ڈاکے ڈال رہی ہیں۔ماضی قریب کے معروف عالم دین،مایہ ناز محقق و مصنف،فرق ضالہ باطلہ کے جرأت مند متعاقب حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید ؒ انہی ایمان سوزفتنوں سے متعلق رقم فرماتے ہیں:”دورِ حاضر کو سائنسی اور مادی اعتبار سے لاکھ ترقی یافتہ کہہ لیجیے؛لیکن اخلاقی اقدار،روحانی بصیرت، ایمانی جوہر کی پامالی کے لحاظ سے یہ انسانیت کا بدترین دورِ انحطاط ہے۔ مکر وفن، دغا وفریب، شر وفساد، لہو ولعب، کفر ونفاق اور بے مروّتی ودنائت کا جو طوفان ہمارے گرد وپیش برپا ہے، اس نے سفینہء انسانیت کے لیے سنگین خطرہ پیدا کردیا ہے۔ خلیفہء ارضی (بنی نوع انسان) کی فتنہ سامانیوں سے زمین لرز رہی ہے اور بحر و بر، جبل و دشت اور وحوش و طیور ”الامان والحفیظ!“ کی صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں، انسانیت پر نزع کا عالم طاری ہے،اس کی نبضیں ڈوب رہی ہیں، لمحہ بہ لمحہ اس جاں بلب مریض کی حالت متغیر ہوتی جارہی ہے، یہ دیکھ کر اہلِ بصیرت کایہ احساس قوی ہوتا جارہاہے کہ شاید اس عالم کی بساط لپیٹ دینے کا وقت زیادہ دور نہیں“۔ (عصرِ حاضرحدیث ِنبوی کے آئینے میں،ص:9) “(فکر و خبر،بھٹکل)
فتنوں کی تاریخ نہایت ہی قدیم ہے ۔ فتنے زمانہء رسالت سے ہی جنم لیتے رہے ہیں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عہد میں بھی کئی فتنوں نے سر اُٹھایا ۔ ان فتنوں میں ” نفاق” ایک بڑے فتنے کی شکل میں مدینہ منورہ میں موجود تھا ۔ بعض جھوٹے مدعیان نبوت کا فتنہ بھی تھا ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد نئے نئے فتنے جنم لیتے رہے ۔ خیر القرون کے بعد فتنے کثیر اور خطیر ہوتے چلے گئے ۔ زمانہ جوں جوں قیامت سے قریب ہوتا جا رہا ہے فتنوں کی شدت اور خطرناکی بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک علم دین نہ اٹھ جائے گا اور زلزلوں کی کثرت نہ ہو جائے گی اور زمانہ جلدی جلدی نہ گزرے گا اور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور «هرج» کی کثرت ہو جائے گی اور «هرج» سے مراد قتل ہے۔ قتل اور تمہارے درمیان دولت و مال کی اتنی کثرت ہو گی کہ وہ ابل پڑے گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِسْقَاءِ/حدیث: 1036]
عصر حاضر میں جہاں بہت سارے فتنے موجود ہیں وہیں ایک بڑا فتنہ بھی ہے جو لوگوں کے دین و ایمان پر ڈاکہ ڈال کر ان کو کفر و الحاد کی دلدل میں دھکیل رہا ہے ۔ وہ فتنہ ” شکیل بن حنیف” کا فتنہ ہے ۔ 21ویں صدی کی شروعات میں یہ فتنہ جنم لیا اور آج یہ فتنہ تناور درخت بن کر ایک بڑی تعداد کو اپنے دام فریب میں پھنسا چکا ہے ۔ شکیل بن حنیف ایک جھوٹا اور کذاب شخص ہے جو اپنے آپ کو مسیح موعود اور امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ۔ اس کا تعلق بہار کے دربھنگہ ضلع کے کیوٹی بلاک میں واقع ” عثمان نگر” سے ہے ۔ یہ شروع سے سادہ لوح قسم کے لوگوں خاص طور پر کالج اور یونیورسٹی کے ان طلبہ کو اپنا نشانہ بناتے ہیں جو علم شرعی سے نابلد اور دین و شریعت سے دور ہوتے ہیں ۔ اس کذاب شخص کا طریقہ کار یہ ہیکہ پہلے یہ لوگوں کو ” علماء دین ” سے بیزار کرتا ہے پھر آہستہ آہستہ اپنے آپ کو حضرت عیسیٰ اور امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرتاہے ۔ یہ کہتا ہے کہ “قیامت واقع ہونے والی ہے ۔ اس لئے دنیا فتنوں سے بھر چکی ہے ۔ دجال بھی آچکا ہے اور وہ امریکہ اور فرانس ہے ۔ امریکہ کا ” کا” اور فرانس کا ” فر” ملانے سے کافر ہو جاتا ہے اور دجال کی علامت یہ ہے کہ وہ کافر ہوگا ۔” اس طرح سے یہ جھوٹا شخص شکیل بن حنیف اپنے جال میں لوگوں کو پھنساتا ہے اور اس کے بعد اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے پر ابھارتا ہے ۔ اس طرح سے وہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ سیدھے سادے لوگوں کے دین و ایمان کو برباد کرتا ہے ۔ رفتہ رفتہ اس کے متبعین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ۔ اس کو اسلام دشمن عناصر کی پوری اعانت اور حمایت حاصل ہے ۔ اورنگ آباد،مہاراشٹرا میں اس کو زمین کا ایک بڑا علاقہ خرید کر دے دیا گیا ہے جہاں وہ کالونیوں بناکر اپنے متبعین کے ساتھ رہتا ہے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے لوگوں کو ٹریننگ دیتا ہے ۔ شکیل بن حنیف کے فتنے کا زور دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ علماء و ائمہ کے ساتھ ساتھ سماج و معاشرہ کے ہر ذمہ دار شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام الناس کو اس فتنے کی خطرناکی سے آگاہ کریں اور اس سے بچنے کی تدابیر پر غور کریں،اس کے اسباب و حل کو تلاشیں اور اس فتنے کے سد باب کی مثبت کوششیں کریں۔
فتنہ شکیل بن حنیف کے اسباب و حل تقریباً وہی ہیں جو عام فتنوں کے ہیں ۔ عبد الرشید طلحہ نعمانی لکھتے ہیں:
“فتنوں کے اس دور میں مسلمانوں کا بڑا طبقہ ایمان کے حوالے سے غیر اطمینانی کیفیت سے دوچار ہے؛جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج اکثر مسلم گھرانے اسلامی تعلیمات اور قران و حدیث کے علوم کی روشنی سے محروم ہیں،بچپن سے انگریزی تعلیم پڑھنے اور اسی ماحول میں پلنے بڑھنے کی وجہ سے کسی کو فرصت ہی نہیں ملتی کہ قران و حدیث پڑھے اور ان کی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔جب یہی بچے سن شعور کو پہنچتے ہیں تو بے دھڑک ایسی کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کردیتے ہیں یا ایسے اسکالرس کو سننے اور دیکھنے لگ جاتے جو غیر محسوس طریقے پرخدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمیت مذہبی تعلیمات سے بیزاری کی راہ پر ڈال رہے ہوتے ہیں۔رفتہ رفتہ وہی زہر دماغ میں سرایت کرنے لگتا ہے،جو اس کتاب یا ویڈیوکلپ میں پڑھا یا دیکھا جاتا ہے نتیجتاً عقلیت پرستی کا شکار ہوکرقلادہئ اسلام ہی کو گردن سے نکال پھینکتے ہیں۔ہم ایک نظر اپنے اردگرد کے ماحول کی طرف دوڑائیں تو ایسی مثالیں آج ہر جانب نظر آئیں گی کہ اسلام پہ اعتراض کرنے والے روشن خیال اور جدت پسند طبقے میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو فلسفہ و منطق سائنس اور ٹکنالوجی پر تو عبور رکھتے ہیں؛ مگر اکثریت کو کلمہ شہادت کا مفہوم بھی معلوم نہیں۔
گم راہی میں مبتلا ہونے کا دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ مسلمان اپنے ماضی سے بالکل بے خبر ہوچکے ہیں،ماضی میں اٹھنے والے فتنوں،برپاہونے والی تحریکوں اور سر ابھارنے والی جماعتوں کا انہیں کوئی علم نہیں، ایک صدی قبل کے مسلمانوں کے بارے میں انہیں کوئی خبر نہیں کہ مسلمان اس وقت کن حالات میں زندگی گزار رہے تھے،اگرمسلمان عروج پر تھے تو اس کی وجوہات کیا تھیں اور اگر مسلمان زوال کا شکار تھے تو کن اسباب کی بنا پر،جب تک ہم اس چیز کو نہیں سمجھیں گے، ہم کامیابی کے طریقہ کار کا چناو ہر گز نہیں کرسکتے۔
تیسرا سبب یہ ہے کہ آج ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عوام کو علماء سے بدظن کیا جارہا ہے، عوام دن بدن علماء سے دور ہوتے جارہے ہیں اور دوسری جانب متجددین ایک نئے دین کا جال بچھا کر عوام کے ایمان کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں، اور بہت سارے مسلمان متجددیں اور لبرلز کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر غیر شعوری طور پر اسلام کے دائرے سے نکلتے جارہے ہیں۔
دین و ایمان کے لیے ان خطرناک حالات میں اگر ہر مسلمان پہلے مکمل طور پر اسلامی تعلیمات سے واقفیت حاصل کرے، تاریخ کا مطالعہ کرے، علماء کرام سے اپنا تعلق مضبوط رکھے،اور اس کے بعد پھر کسی بھی نظام یا جماعت کا جائزہ لے تو یہ بات وہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ راہ نجات صرف وہی ہے جو اسلام نے بتائی ہے، اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا بہتر طریقہ وہی ہے جو نسل در نسل اسناد صحیح کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام تک، صحابہ کرام سے تابعین اور تبع تابعین تک پھر ائمہ کرام اور علمائے حق کے واسطے سے ہم تک پہونچتا ہے۔اللھم ارنا الحق حقا وارقنا اتباعہ و ارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ” (فکر وخبر،بھٹکل)۔

Related posts

عید الاضحیٰ کےفضائل ومسائل اور قربانی کی اہمیت۔ تحریر وترتیب: ڈاکٹر مفتی تمیم احمد قاسمی

عالم اسلام کو تنظیم فروغ اردو تمل ناڈو انڈیا کی جانب سے عیدالاضحی کی پرخلوص مبارک باد۔:

Hamari Duniya

 شبلی ڈے پر اسپیشل: ’شبلی نعمانی‘ حیات و خدمات

Hamari Duniya

سپریم کورٹ کی سرزنش کے بعد بھی نفرت کا کھیل

Hamari Duniya