پرویز یعقوب مدنی جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال
مذہب اسلام کی روشن تعلیمات تمام شعبہائے زندگی کے لئے انتہائی ضروری ہیں، اسلامی تعلیمات کو اپنانا اور اسے فروغ دینا ایک مرد مومن کی ایمانی شان، اس کی پہچان اور اس کا فرض منصبی ہے۔ ذیل میں ایک حدیث اور اس کے ترجمہ اور توضیح سے یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک مومن کے لئے نفع بخش علم کی کتنی اہمیت ہے۔ باری تعالی اس مختصر تحریر کو نفع عام بنائے۔آمین
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ اقْتَبَسَ عِلْمًا مِنْ النُّجُومِ اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنْ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ۔ (سنن ابی داؤد ٤/رقم الحديث: 3905)
ترجمہ: صحابی رسول سیدنا عبداللہ ابن عباس رضي اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس نے نجوم کا کوئی علم سیکھا اس نے جادو کا ایک حصہ سیکھا چنانچہ جو اس (علم نجوم) میں جتنا زیادہ بڑھتا ہے وہ اس (جادو سیکھنے) میں اضافہ کرتا ہے۔
توضيح وتشریح: تعليم و تعلم پر شریعت اسلامیہ نے انسانوں کو خوب ابھارا ہے، حصول تعلیم سے اقوام میں بیداری آتی ہے، انسان کو کھرے کھوٹے میں تمیز کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ انسانی جان و مال اور اسباب کے تحفظ و بقا میں علم کا مقام نہایت اعلی اور عظیم ہے جسے بروئے کار لا کر معاشرہ میں امن و یکجہتی، خیر سگالی اور بقاء باہمی کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
حصول علم سے انسانوں کے اقدار اور مقام بلند ہوتے ہیں، صاحب علم کی معاشرے کے تمام طبقات میں بے انتہا پذیرائی ہوتی ہے؛ لیکن وہ علم جو انسان کو ہلاکت اور ضلالت و گمراہی کے دلدل اور قعر مذلت میں ڈھکیل دے، شریعت اسلامیہ ایسے علم کی سخت انداز میں مذمت اور تردید کرتی ہے۔ ایسے علوم جن سے باطل عقائد و نظریات اور اسلامی تعلیمات کے مخالف افکار کو فروغ ملے، عدل و انصاف کا خاتمہ ہو، ظلم و بربریت عام ہو اور معاشرہ میں حق تلفی، زیادتی اور عدوان و سرکشی پروان چڑھے، اسلامی شریعت ان علوم سے خصوصاً بچنے اور دور رہنے کی تلقین کرتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ماثور دعا میں “اللھم انی أسئلک علما نافعا” کے الفاظ وارد ہیں۔ اس دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نافع علم کی تحدید کرکے غیرنافع کی تردید کی ہے۔
مذکورہ بالا حدیث میں جادو، کہانت اور علم نجوم سیکھنے کی بابت شریعت کا رخ بیان کیا گیا ہے، یاد رہے کہ علم نجوم جادو ہی کی ایک قسم ہے، اس سے مراد وہ علم ہے جس کے ذریعے سے غیب کی خبریں اور اوقات کے سعد، نحس یا امور کے مفید یا غیر مفید وغیرہ ہونے کی باتیں بتائی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں وہ لوگ ان کے مؤثر ہونے کا اعتقاد بھی رکھتے تھے۔ حالانکہ نہ ان سے مستقبل کے حالات معلوم ہو سکتے تھے اور نہ وہ موثر ہی ہوتے تھے۔ اس لئے شریعت نے اس کہانت سے لوگوں کو روکا اور اس پر سخت وعید بیان فرمائی ہے۔
اس علم سے انسان کا ایمان و عقیدہ خراب ہوتا ہے، یہ باری تعالیٰ پر بہتان باندھنے کی مذموم کوشش و سازش ہے جو کسی بھی طرح سے ایک صاحب ایمان کے لئے جائز اور درست نہیں ہے اور نہ ہی مذہب اسلام میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔ یہ اللہ رب العالمین کی ذات کے منافی ہے کیونکہ علم غیب کی نسبت اللہ تعالی نے خود اپنی طرف کی ہے غیب کی خبریں بتانے سے اولیاء، صالحین اور اللہ کے مقرب فرشتوں سمیت تمام انبیاء و رسل قاصر رہے ہیں۔ بسا اوقات اللہ رب العالمین بعض مسائل سے اپنے انبیاء کو بذریعہ وحی آگاہ کیا، جس کا یہ مطلب قطعا نہیں ہے کہ انبیاء کو نعوذ باللہ غیب کی خبریں معلوم تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ستاروں کے ذریعے سے اوقات معلوم کئے جائیں یا راستے اور سمتیں متعین کی جائیں تو یہ بالاتفاق جائز ہے۔
حدیث کے آخري جملے میں تہدید اور انذار (ڈرانے) کا معنی ہے۔ اس لئے ہمیں ایسے علم کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے جس سے دونوں جہان میں ہماری سر خروئی ہو اور ایسے علوم سے بچنے کی سعی پیہم اور عزم کرنا چاہئے جس سے ہمارے ایمان و عقیدہ پر کسی بھی قسم کی آنچ آئے اور جو دارین میں ہماری کامیابی کے لئے رکاوٹ ثابت ہو۔ اللہ رب العالمین ہمیں نفع بخش علم حاصل کرنے اور اسے عام کرنے کی توفیق ارزانی نصیب کرے۔ آمین