میوات میں بے گھرکئے گئے لوگوں کا دکھ حکومت کی بے حسی کا آئینہ بن گیا
جاوید قمر
ملک میں جب سے ایک مخصوص سوچ رکھنے والوں کی حکومت آئی ہے سب کچھ بدل گیاہے، ایک ایسی طرزحکمرانی کا ہم مشاہدہ کررہے ہیں جس کا سراکہیں نہ کہیں آمریت سے جاملتاہے،دلچسپ پہلوتویہ ہے کہ ایک طرف جہاں ملک کو اب ’مدرآف ڈیموکریسی‘کہا جانے لگاہے وہیں دوسری طرف جمہوریت کے نظام کو کمزورہی نہیں بلکہ پوری طرح ختم کردینے کے نئے نئے حربہ اختیارکئے جارہے ہیں، کہاجاتاہے کہ جمہوریت کی عمارت کے تین مضبوط ستون ہوتے ہیں، قانون سازیہ، مقننہ اورعدلیہ۔ صحافت کو بھی جمہوریت کا چوتھاستون کہاجاتاہے، جب تک جمہوریت کے یہ سارے ستون مضبوط رہے عدل وانصاف کی مثالیں بھی سامنے آتی رہیں اورجمہوری نظام کے فوائد بھی تمام شہریوں کو ملتے رہے لیکن جب سے یہ ستون کمزورہوئے ہیں سارامنظرنامہ ہی بدل گیاہے، قانون سازیہ کو غیر معمولی طاقت حاصل ہوگئی ہے، مقننہ اس کے اشارہ پر ہی کام کررہی ہے، رہی بات عدلیہ کی تو اس کاوقاراوراعتباردونوں بڑی حدتک اب مجروح ہوچکے ہیں۔
اس کا تاریک پہلویہ ہے کہ آئین میں کہی گئی تمام باتیں اب ماضی کا قصہ معلوم ہونے لگی ہیں، آئین کی دہائی تو اب بھی دی جاتی ہے، اس کی قسمیں بھی کھائی جاتی ہیں،لیکن حکومت کے طرزعمل میں آئین کے رہنمااصولوں کی اب جھلک تک نہیں ملتی، سچائی یہ ہے کہ اکثریت کے زعم میں لوک سبھااورراجیہ سبھامیں قوانین اورروایت کو پامال کرنے سے بھی گریزنہیں کیا جارہاہے، اب دونوں ایوانوں میں کسی طرح کی بحث یا مشورہ کے بغیر نئے قوانین کی منظوری محض سوتی ووٹ سے ہورہی ہے، جب مباحثہ ہی کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے تواپوزیشن کی تجاویز پر غوریا انہیں قبول کرنے کا سوال ہی کہاں باقی رہ جاتاہے،پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوران حکومت نے 357سوالوں کا جواب نہیں دیئے، پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلاموقع ہے کہ جب لوک سبھاکے 163 اورراجیہ سبھاکے 194سوالات کو پارلیمنٹ کی سوال فہرست سے نکال دیا گیا، قابل ذکرہے کہ یہ تمام سوالات ان 146ارکان پارلیمنٹ نے تحریری طورپر پوچھے تھے جنہیں اس اجلاس کے دوران ایوان سے معطل کردیا گیا، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ’مدرآف ڈیموکریسی‘میں ڈیموکریسی کو کس حال میں پہنچادیا گیاہے۔
قانون سازیہ اورعدلیہ میں کس کوکس پر فوقیت حاصل ہے یہ سوال اتنااہم نہیں ہے جتنا یہ کہ کیا عدلیہ کو قانون سازیہ اس طرح بے حیثیت کرسکتی ہے؟ آزادی کے بعد سے اب تک قانون سازیہ اورعدلیہ کے درمیان ایک صحت مند توازن بہرحال قائم رہا، لیکن اب یہ توازن نظر نہیں آتا، ماضی میں عدلیہ کے ایسے کئی اہم فیصلہ آئے جو حکومت کے خلاف تھے لیکن انہیں تسلیم کیا گیا اسی تناظرمیں الہ آبادہائی کورٹ کے اس تاریخ سازفیصلہ کو یادکیا جاسکتاہے جس میں اندراگاندھی کے انتخاب کو ردکردیاگیاتھا، حالانکہ وہ اس وقت وزیراعظم تھیں، لیکن فیصلہ آنے کے بعد انہوں نے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیدیاتھا، عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزیاں اب عام ہوگئی ہیں، یہ تاثردینے کی درپردہ منظم کوشش بھی ہورہی ہے کہ عدلیہ پر قانون سازیہ کو فوقیت حاصل ہے کیونکہ قانون اس کے ذریعہ ہی بنائے جاتے ہیں، اس رویہ یا رجحان کی تائید نہیں کی جاسکتی، لیکن افسوس اکثریت کے غرورمیں عدلیہ کے وقاراوراعتبارکوبھی داؤپر لگادیاگیاہے۔ آج کی طرزحکمرانی میں جن نئی چیزوں کو متعارف کرایا گیا ہے ان میں ماورائے عدالت سزادینے کا فیصلہ بھی ہے، بلڈوزرکی سیاست اب تک کتنے گھروں کو ملبہ میں تبدیل کرچکی ہے اس کے صحیح اعدادوشمارتو اب تک سامنے نہیں آئے لیکن اقتدارکو برقراررکھنے اورڈروخوف کو رواج دینے کے حربوں میں اب اسے ایک کارگر حربہ سمجھاجارہاہے، بلڈوزرکی سیاست میں اترپردیش سرفہرست ہے لیکن بی جے پی حکمرانی والی دوسری ریاستوں میں بھی اس پر مستعدی سے عمل ہورہاہے، مدھیہ پردیش میں اپنے عہدہ کا حلف لینے کے فورابعد نئے وزیراعلیٰ کے حکم پر ایک شخص کے گھر پر بلڈوزر چلوادیاگیا، بلڈوزرکی سیاست عدلیہ کے سخت تبصروں کے بعدبھی جاری ہے اوراس کے خلاف جو پٹیشن سپریم کورٹ میں داخل ہے اس پر طویل عرصہ گزرجانے کے باوجوداب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں آیاہے۔
چند ماہ قبل ہریانہ کے مسلم اکثریتی علاقہ میوات میں فرقہ وارانہ تشددکے بعد وہاں کی کھٹرسرکارکو بھی بلڈوزر یادآگیا، چنانچہ ضلع نوح کے فیروزپورجھرکہ میں پہاڑی کے دامن میں واقع 20گھروں پر مشتمل ایک قدیم بستی کو ملبہ کا ڈھیربنادیاگیا، ان میں تین ہندوخاندان بھی شامل تھے، دلیل دی گئی کہ بستی سرکاری زمین پرتھی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں لوگ دہائیوں سے آبادتھے یہ محنت مزدوری کرنے والے غریب لوگوں کی بستی تھی، گھروں کو توڑدیاگیاتووہ سڑک پر آگئے ان کے پاس ایسی کوئی دوسری زمین نہیں تھی جہاں وہ دوبارہ اپنا آشیانہ بنالیتے۔ بے گھر کردینے کے باوجود ریاستی حکومت اور ضلع کی انتظامیہ نے ان کے لئے کسی متبادل جگہ کا انتطام نہیں کیا اور یہ بات جب جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدارشدمدنی کو معلوم ہوئی تو انہوں نے متاثرین کو یہ یقین دہانی کرائی کہ جمعیۃعلماء ہند جلد ہی انہیں دوبارہ آبادکرے گی، اس یقین دہانی کی تکمیل کے سلسلہ میں گزشتہ 15دسمبر کو مولانا مدنی جب فیروزپورجھرکہ کے لئے روانہ ہوئے توان کے ہمراہ دہلی سے صحافیوں کی ایک ٹیم بھی تھی،جس کا راقم الحروف بھی حصہ تھا، زمین پہلے ہی خریدی جاچکی تھی اورمتاثرین کی خواہش پر مولانا مدنی انہیں زمین کے کاغذات اورامدادی رقم کا چیک سونپنے جارہے تھے، اس کے لئے فیروزپورجھرکہ کے قریب پہاڑی کے دامن میں ایک سادہ سی تقریب کا انعقادکیا گیاتھا، کاغذات اورچیک کی تقسیم کاسلسلہ شروع ہواایک ایک کرکے متاثرین کا نام پکاراجارہاتھا ڈائس کے قریب کھڑے ہوکر میں متاثرین کے چہروں کو پڑھنے کی کوشش کررہاتھا،میں نے محسوس کیا کہ زمین کے کاغذات اورچیک پاکر بھی ان کے چہروں سے ان کے اندرکا دکھ جھانک رہاتھا،مجھے بڑاتجسس ہوا چنانچہ میں نے بعض متاثرین سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ زمین کے کاغذات اورامدادی چیک پاکر وہ کیا محسوس کررہے ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ میرے پوچھنے پر ہرایک کا جواب تقریبا ایک جیساتھا، ان سب کا کہنا تھا کہ وہ جمعیۃعلماء ہند اورخاص طورپر مولانا مدنی کے بے حد شکرگزارہیں کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب ان کی مددکو کوئی نہیں آیا، وہ ان کے سروں پر چھت فراہم کررہے ہیں، لیکن وہ اب تک اپنا پرانا گھر نہیں بھول سکے ہیں ان کا کہنا تھا کہ جیسابھی تھا اس گھرمیں ان کے خواب تھے ان کی ایک دنیا اس میں آبادتھی، جسے ایک جھٹکے میں گرادیا گیا یہاں تک کہ انہیں اپنا سامان بھی نکالنے کی مہلت نہیں دی گئی، اس وقت مجھے ڈاکٹربشیر بدرکا یہ شعرشدت سے یادآیا۔
عمریں بیت جاتی ہیں ایک گھربنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
بے گھر ہونے والوں میں ایک بوڑھی خاتون بھی شامل تھی جب اس کا نام پکاراگیا توکچھ لوگ اسے سہارادیکر ڈائس تک لائے ایک لاکھ روپے پر مشتمل ابتدائی امدادی چیک دیتے ہوئے جب مولانا مدنی نے اس سے کہا کہ مائی اسے احتیاط سے رکھ لو کہیں تمہاری جیب سے گرنہ جائے تواس کے ہونٹ لرزرہے تھے وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی لیکن زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی، اس کی آنکھوں میں آنسوتھے میں نے جب اس سے یہ جاننے کوشش کی کہ اس کے گھر والے کہاں ہیں تواس نے لرزتے ہوئے ہونٹوں سے کہا کہ وہ اکیلی ہے شوہر کب کا مرچکاآگے پیچھے کوئی نہیں ہے، شوہر کی یادگارایک ٹوٹاپھوٹاگھر تھا حکومت نے اسے بھی چھین لیا مگر وہ خوش ہے کہ اسے زمین کے کاغذات مل گئے ہیں، اس نے مجھے چیک دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ حضرت جی نے دیاہے اور اب اس کے پاس ایک ایسا گھر ہوگاجسے وہ اپنا گھر کہہ سکے گی ایک ایساگھر جو اس کی پناہ ہوگااورجس میں وہ چین کی نیندسوسکے گی اورجسے سرکارکے بلڈوزرسے کوئی خطرہ نہ ہوگا۔ایک عجیب وغریب ماحول اس وقت دیکھنے کو ملا جب مولانا مدنی ڈائس سے اترکر اپنی گاڑی کی طرف جارہے تھے، متاثرین روتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ انہیں الوداع کہہ رہے تھے ان کے یہ آنسوشاید شکریہ کا اظہارتھے اورتب میرے ذہن میں منوررانا کا یہ شعرگونج اٹھا ۔
ایک آنسوبھی حکومت کے لئے خطرہ ہے
اس نے دیکھانہیں آنکھوں کا سمندرہونا
کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ آنسوں کی بھی اپنی زبان ہوتی ہے اورآنسووہ سب کچھ کہہ جاتے ہیں جوکبھی کبھی زبان نہیں کہہ پاتی۔
(مضمون نگارپی آئی بی سے وابستہ اردوکے سینئر صحافی ہیں)