یوم اردو اور ہماری ذمہ داریاں
حکیم محمد شیراز
سائنسداں و ریڈرشعبۂ معالجات
کشمیر یونیورسٹی، سری نگر
موبائل: نمبر9797750472
یہ وہ زمانہ ہے جس میں قدیم و جدید کے درمیان شدید رقابت ہے ۔ایک شخص بیک وقت دونوں قلم روؤں سے راہ و رسم نہیں لکھ سکتا۔قدیم و جدید نمائندوں کا ایک جگہ جمع کرنا مشکل ہے۔ملک کی زبان ادب میں بھی سرحد یں قائم ہیں ۔وہ دور جس نے نذیر احمد ، حالی و شبلی، سر سید احمد خاں ، ابو الکلام آزادجیسے عالم اور صاحب انشا پرداز ادیب بلکہ الفاظ کے جادوگر پیدا کیے ، اب ختم ہو گیا ہے، اب یک فنی عقلاءکا دور ہے جو ادب و شاعری کو فن وثقافت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ایسے بھی لوگ ہیں جو جیتی جاگتی زبان اور سلیس و شیریں اردو میںتصنیف کرنا اپنی عالمانہ شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔جغرافیہ اور تاریخ سے نا واقفیت ادبائے جدید کا شعار ہے۔علوم قدیمہ میں بھی بالعموم مغائرت ہے۔جو فنکارہیں وہ ادیب نہیں ہیں اور جو ادیب ہیں وہ فن کار نہیں ہیں۔
دور حاضر میں اردو کے ساتھ جو ناروا سلوک برتا جا رہا ہے ، وہ کسی سے مخفی نہیں۔اتر پردیش، جو کسی زمانہ میں اردو کا مرکز تسلیم کیا جاتا تھا ، آج وہاں کی اسکولوں سے(یونانی طبیہ کالجوں کو مستثنیٰ کر کے) اردو زبان کی تعلیم کالعدم کر دی گئی ہے۔اردو جاننے والے اور اردو کو اپنی مادری زبان بولنے والے خود احساس کمتری کا شکار ہیں نیز انگریزی سے حد درجہ متاثر نظر آتے ہیں۔انگریزی میں لکھے ہوئے مقالات، تقاریر اور کتب کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جب کہ اردو میں لکھے ہوئے مضامین اور کتب کی اہمیت میں تخفیف ، بلکہ معاملہ تحقیر تک پہنچا ہوا ہے۔ انگلشتان میں ایک فقیر انگریزی میں بھیک مانگتا ہے۔راقم السطور، انگریزی کے گرویدہ لوگوں سے یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ اس طرح تو اس فقیر کوبھی بڑا اسکالر قرار دینا چاہیے۔اس ضمن میں اس مضمون میں راقم ، قارئین کے سامنے چند تجاویز رکھنا چاہتا ہے، نیز یوم اردو کے تحت ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مادری زبان کی اہمیت:
مادری زبان کسی بھی انسان کی شخصیت کی تعمیر، تعلیم اور ہمہ جہت ترقی میں بنیادی کردارادا کرتی ہے۔ مادری زبان ایک امانت ہے جونسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں 1600سے زیاد بولیاں اور22سرکاری زبانیں ہیں جس میں اردو بھی شامل ہے۔ بولی اس زبان کو کہتے ہیں جس کی تحریری شکل نہیں ہوتی جیسے قبائلی زبانیں گونڈ‘بھیل‘لمباڑے وغیرہ کی بولیاں۔ زبان سے مراد وہ زبان ہے جس کے بولی اور تحریری شکل دونوں ہوتی ہیں۔
اردو تاریخ کے آئینے میں:
آزادی سے قبل ہندوستان میں اردو کا چلن عام تھا لیکن ہندی کو پروان چڑھانے کے لئے حکومتی سطح پر کوشش کی گئی اور آزادی کے بعد اردو کے مقابلے ہندی کو سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ اور لسانی بنیاد پر ریاستوں کی تقسیم عمل میں آئی تو سوائے جموں و کشمیر کہ ہندوستان کی کسی بھی ریاست میں اردو کو پہلی سرکاری زبان کا موقف نہیں مل سکا۔ جب کہ سارے ہندوستان میں اردو بڑے پیمانے پر بولی اور لکھی جاتی ہے۔ زبان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اسے سرکاری سرپرستی حاصل ہو۔ آزادی سے قبل ہمارے سامنے مثال تھی کہ نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان کی دوراندیشی کے سبب عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام 1917ءمیں حیدرآباد میں عمل میں آیا تھا اور اس یونیورسٹی میں اردو میں میڈیکل اور انجینیرنگ کے بشمول تمام روایتی اور فنی کورسز اردو میں پڑھائے جاتے تھے۔ لیکن آزادی کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی کا ذریعے تعلیم اردو سے انگریزی کردیا گیا۔ آندھرا پردیش میں تیلگو سرکاری زبان بنی اور اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک روا رکھا گیا۔ اور آج بھی نئی ریاست تلنگانہ میں اردو کو سرکاری زبان کاموقف حاصل کرنے کے لئے جد وجہد کرنا پڑ رہا ہے۔
اردو کے تئیں ہماری ذمہ داریاں:
موجودہ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم اردو کی بقا اور فروغ کی سرگرمیاں انجام دیں تاکہ سماج کے سامنے اردو زبان کی اہمیت و افادیت کے وہ تمام پہلو اجاگر ہوجائیں جنہیں ہمارا سماج ایک عرصے سے نظرانداز کرتا آرہا ہے اور جو موجودہ وقت کی ضرورت ہیں۔ اس سلسلے میں ہم چند تجاویز پیش کرنا چاہتے ہیں۔
۱) عملِ تعلیم میں مادری زبان کی اہمیت و افادیت سے متعلق عام بیداری : اردو زبان سے متعلق سماج میں موجود کئی غلط فہمیاں ( بالخصوص روزی روٹی کے تعلق سے ) موجود ہیں۔ ہمیں اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ”مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کے حصول کے فوائد“ سے متعلق عام بیداری پیدا کرنے اوراس کے لیے ماحول سازی کی بہت سخت ضرورت ہے۔
۲) اردو زبان کا اگلا قاری تیار کیجیے : اردو زبان کے ارتقا اور بقا کے لیے لازمی ہے کہ ہم اردو کا اگلا قاری تیار کریں۔ بچوں کو مطالعہ کا عادی بنانے کے لیے اردو کتابیں رسالے اخبارات خریدیں اور بچوں کو پڑھنے کے لیے دیں۔
۳) انگریزی اور دیگر زبانوں پر عبور دلانے کی سرگرمیوں کو بڑھاوا دینا : انسان اپنی مادری زبان پر عبور حاصل کرلے تو اس کے لیے کسی اور زبان یا علم کو حاصل کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے علاقے کی زبانوں اور انگریزی پر بھی عبور حاصل کریں۔ ۴) ادب ِاطفال کا فروغ : ہمیں اردو زبان میں ادبِ اطفال پر مزید محنت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ آج زمانے کی ضروریات سے ہم آہنگ ادب ِاطفال تخلیق کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ موجودہ وقت سائنس کا ہے۔ ہم سائنس فکشن اور سائنسی موضوعات پر بہترین کتابیں تحریر کرسکتے ہیں۔ بچوں کے لیے کتابیں تحریر کرتے وقت رموزواوقاف، ذخیرہ ¿ الفاظ،املا اور ہجا کے مسائل پر بھی مستقل طور پردھیان دیا جائے تو بچے معیاری زبان ، معیاری تلفظ و لب و لہجہ سے روشناس ہوسکتے ہیں۔
۵) اسکولوں میں اردو زبان کے فروغ سے متعلق پروگراموں کا انعقاد : اسکولوں میں اردو زبان کی تاریخ ، اردو کی شیرینی واثرپذیری اور ایسے ہی دیگر عنوانات پر تقاریر، بحث و مباحثہ اور دیگر سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے۔ زبان کے کھیل، زباندانی کے مقابلے اورنصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے زبان پر عبور دلانے کا منصوبہ بنایا جائے۔ پروگرام ایسے ماحول میں منعقدکئے جائیں کہ اردو سے انسیت و محبت کا ماحول پیدا ہو۔
۶) ادبی و تعلیمی پروگراموں کا انعقاد : اپنے علاقوں میں ادبی نشستوں اور مشاعروں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ مذاکرہ اور سیمینار وغیرہ بھی منعقد کیجیے جن میں اردو زبان کا موجودہ منظرنامہ ، اردو زبان کا مستقبل ، اردو زبان کی تدریس کے مسائل ،اردو زبان کی ترقی و بقا کے لیے اقدامات اور مادری زبان(اردو) کے اسکولوں میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے فوائد جیسے عنوانات پرعام بات چیت اور بحث و مباحثہ ہو۔
۷) اخبارات میں مضامین اور مراسلوں کی اشاعت : ہمارے درمیان ایسے بہت سارے اسکالرس موجود ہیں جو اردو کی بقا کے لیے سرگرم ہیں۔ ایسے تمام ہی اسکالرس، اساتذہ اور دیگر ماہرین ِ فن سے درخواست ہے کہ وہ اردو زبان کی بقا اور فروغ کے مختلف پہلوں سے متعلق عنوانات پر مقالے اور مضامین لکھیں اور شائع کروائیں جن سے اردو زبان سے متعلق تمام غلط فہمیاں دور ہوسکیں اور عوام کی ذہن سازی ہو۔ اسی طرح مراسلہ نگاران اردو زبان سے متعلق موضوعات پر مراسلے تحریر کرتے ہوئے اخباروں میں شائع کروائیں۔
۸) سوشل میڈیا پر اردو زبان کا استعمال : موجودہ زمانے میں سوشل میڈیا کی اہمیت اور ان کے بڑھتے ہوئے استعمال سے انکار ممکن نہیں۔ عام طور پر لوگ سوشل میڈیا پربات چیت کرنے کے لیے انگریزی رسم الخط کا استعمال کرتے ہیں اور رومن تحریر کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ آپ نے لوگوں کو مراٹھی اور ہندی زبانوں میں بھی تحریر کرتے دیکھا ہوگا۔ ایسے ماحول میں اگر ہم سوشل میڈیا پر اردو رسم الخط استعمال کرنے کا مشورہ دیں تو کوئی معیوب بات نہیں ہوگی۔فیس بک، واٹس اپ،ٹوئٹر، ہائک اورسوشل میڈیا کے دوسرے ذرائع کا استعمال کرنے والے احباب جانتے ہیں کہ ان کے کمپیوٹر یا موبائل پر اردو پڑھنے اور لکھنے کی سہولت موجود ہے۔ہماری گذارش ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ اردو زبان میں تحریر کریں۔
۹) خطوط نویسی ، مضمون نویسی جیسی صلاحیتوں کا فروغ : موجودہ وقت میں خطوط نویسی اور عریضہ نویسی کی عادت کا خاتمہ ہوتا جارہا ہے۔ اسکولوں میں طلبا سے خطوط لکھوئے جائیں اور پوسٹ کارڈ پر اردو زبان میں پتہ لکھ کر اسے پوسٹ کردیں۔ ہم سب کی تھوڑی سی کوشش اور محنت ہماری محبوب زبان کو ایک نئی امنگ اور نئی طاقت عطا کرسکتی ہے۔
اردو داں طبقے کے مسائل اور ان کا حل:
ا±ردو مادری زبان کی حیثیت سے اردو میڈیم سے زیر تعلیم طلبا کے اپنے مسائل ہیں۔ انہیں ملازمتیں نہیں ملتیں اور ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔ لیکن ماضی کے برخلاف آج اردو سے زیادہ مواقع ہیں۔ اردو میڈیم طلبا کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اردو میڈیم طلبا انٹرکے بعد بی یو ایم ایس کی میڈیکل تعلیم اردو میں حاصل کر سکتے ہیں۔ D Edکرتے ہوئے اردو اساتذہ کی مخلوعہ جائدادوں پر بھرتی ہوسکتے ہیں۔ گرائیجویشن کے بعد بی ایڈ کریں تو ہائی اسکول ٹیچر بن سکتے ہیں۔ پوسٹ گر یجویشن کی سطح پر بھی مولانا آزاد قومی اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں اردو میڈیم سے پڑھنے کی سہولتے ہے۔ پی جی کے بعد طلبا لیکچرر بن سکتے ہیں۔ اردو یونیورسٹی میں اردو میں ایم بی اے کی سہولت ہے۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں اردو کے قابل طلبا کے لئے روزگار کے مواقع ہیں۔ بین الاقوامی اردو چینل ای ٹی وی اردو حیدرآباد سے ساری دنیا میں اردو نشریات پیش کر رہا ہے۔ جس میں نیوز اور دیگر شعبوں میں اردو طلبا کے لئے مواقع ہیں دوردرشن ک بشمول دیگر علاقائی چینلوں پر اردو میں نیوز ریڈرس کے موقع ہیں۔ اخبارات میں انگریزی سے اردو ترجمہ کرنے کے مواقع ہیں۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر پر اگر کسی کو اردو کمپوزنگ کا کام آتا ہو تو ڈی ٹی پی اور کمپوزنگ کے ذریعے بھی گھر بیٹھے پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔
اردو تحریک:
زبان ایک نامیاتی شئے ہے۔ زبان بھی زندہ رہ سکتی ہے اگر اسے برتا جائے اس لئے اردو والوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اردو میڈیم میں تعلیم دلائیں۔ یا کم از کم دسویں جماعت تک اردو کو بہ حیثیت زبان دوم ضرور پڑھائیں۔ اس سے انہیں سرکاری ملازمت میں آنے کا موقع بھی ملے گا۔اردو اخبار خرید کر پڑھے جائیں۔گھر میں اردو رسائل لائیں۔ اور ماں باپ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر اردو کا ماحول بنائیں۔ قران کا ترجمہ اور اسلامی باتیں اردو میں پڑھائیں۔ حکومتی سطح پر قائدین کی زمہ داری ہے کہ وہ اردو کو سرکاری زبان کے چلن کے طور پر عام کریں۔پورے ملک میں یہ مطالبہ کیا جائے کہ یہاں سب بچوں کو جیسے ہندی لازمی پڑھائی جاتی ہے ویسے ہی غیر اردو دانوں کو اردو بھی لازمی طور پر پڑھائی جائے۔ ہم غیر اردو دانوں سے اردو میں بات کریں، تاکہ ہمارا قومی و لسانی تتشخص باقی رہے نیز ان میں اردو سیکھنے کا جذبہ پروان چڑھے۔ فون پر دوسری زبان میں بھی مسیج کرنا ہو تو اردو میں لکھیں۔ جیسے رومن انگریزی سے اردو میں لکھا جاتا ہے۔ دکان مالکان اپنی دکانات پر اردو میں نام لکھیں۔ بس پر اردو میں بورڈ لکھانے کی مہم چلائی جائے۔ تمام بس اسٹیشن‘ریلوے اسٹیشن‘پولیس اسٹیشن اور ڈاک خانوں کے نام اردو میں لکھائے جائیں۔ سرکاری دفاتر میں اردو میں درخواست دی جائے تو اردو مترجمین کا تقرر ہوگا۔ تمام مدارس میں ایک بورڈ ہو جس پر اردو کے ایک لفظ کے معنی اور اس کا تلفظ اور اس کا انگریزی ترجمہ لکھا جائے۔کمپیوٹر پر اردو عام ہے۔ اب تو فون اور فیس بک پر بھی اردو استعمال ہورہی ہے اور اے ٹی ایم مشینوں پر بھی اردو کا چلن شروع ہوگا۔ اس طرح اس عالمی یوم اردو زبان کے موقع پر ہم یہ عہد کریں کہ زندگی میں کم از کم ایک غیر اردو داں کو اردو پڑھنا لکھا سکھائیں گے۔ اردو زبان کے ساتھ اس کی گنگا جمنی تہذیب ہے۔ چنانچہ ملک میں میں امن و آمان کے قیام کے لئے بھی اس زبان کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بہر حال اردو کے مشہور شاعرداغ نے اردو کے بارے میں جو بات کہی تھی اسے عالمی سطح پر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
خلاصہ :
ضروری ہے کہ ہم احساس کمتری ، مغربی تہذیب سے مرعوبیت، حسد اور تعصب سے باہرنکلیں۔ملک کی عوام میں نفاق کا بیج بونے کی بجائے اردو جیسی شیریں زباں کو پھیلانے کی تحریک چلائیں۔ہم نے ان صفحات میں اپنے ذہن میں موجود تجاویز کو پیش کیا ہے۔ہمیں یقین کامل ہے کہ اس میدان میں متحرک افراد اپنے تجربات کی روشنی میں ان سے بہتر تجویز پیش کرسکتے ہیں اور ان پر عمل بھی کرسکتے ہیں۔آئیے اپنی محبوب زبان کے حضور اپنی محبت کا نذرانہ پیش کریں۔وہ جذؓہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس نے اقبال کی قلندرانہ شان اور مجذوبانہ ادا سے حسب ذیل شعر نکلوایا تھا:
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دلسوزی¿ پروانہ ہے