ڈاکٹر محبوب حسن اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو، گورکھپور یونیورسٹی
معاشرے میں ہر طرف جھوٹ،اور افواہ کا بازار گرم ہے۔ اب تو سچ بات پر بھی اعتبار مشکل سے آتا ہے۔ خبر ہے کہ گزشتہ مہینے بھوپال کے ایئر پورٹ پر سات شاعر بے ہوش پائے گئے۔ شاعروں کا یہ قافلہ کسی عالمی مشاعرہ سے واپس ہو رہا تھا۔ پولیس کی ابتدائی تحقیق کے مطابق اس سازش میں کئ نثر نگاروں کے نام سامنے آ رہے ہیں۔ شک کی بنیاد پر کئ نثر نگاروں کو پولس حراست میں رکھا گیا ہے اور لگاتار دھر پکڑ جاری ہے۔ خدایا! کیا زمانہ آ گیا ہے۔ اب بے چارے شاعر بھی محفوظ نہیں رہے۔ غم کا مقام ہے کہ عشق و محبت کے گیت گانے والے شاعروں کی راہوں میں پھول کی بجائے کانٹے بچھائے جانے لگے ہیں۔ پاپولر میرٹھی نے کیا خوب کہا ہے:
میں ہوں جس حال میں اے میرے صنم رہنے دے
تیغ مت دے میرے ہاتھوں میں قلم رہنے دے
میں تو شاعر ہوں مرا دل ہے بہت ہی نازک
میں پٹاخے سے ہی مر جاؤں گا بم رہنے دے
بھوپال حادثے کی خبر پھیلتے ہی ملک کے مختلف شہروں میں شعرا حضرات نے اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ ادھر دہلی میں شاعر و شاعرات کا ایک ہجوم جنتر منتر پر امڑ پڑا۔ نثر نگاروں کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ احتجاجی جلسہ مشاعرے میں تبدیل ہو گیا۔ شاعروں نے گل و بلبل اور لب و رخسار کی بجائے کڑوے کسیلے اشعار سنائے۔ غزلوں کی بجائے مرثیے پڑھے گئے۔ واہ! واہ! کی جگہ آہ! آہ! کی صدا بلند ہوتی رہی۔ اس طرح انقلاب زندہ باد کے نعروں کے ساتھ مشاعرہ اختتام پذیر ہوا۔ آخر میں شاعروں کا ایک ڈیلیگیشن وزیر داخلہ سے ملا اور اپنی سیکورٹی کی مانگ کی۔
افسوس کہ بے چاری شاعرات بھی اب محفوظ نہیں رہیں۔ ابھی پچھلے برس کی بات ہے۔ دلی میں ایک عظیم الشان کل ہند مشاعرے کا انعقاد ہونا تھا۔ ملک کی کئ اہم شاعرات ایک روز پہلے ہی دہلی میں جمع کر لی گئیں۔ ان کے قیام اور طعام کا معقول انتظام کناٹ پلیس کے کسی مہنگے ہوٹل میں کیا گیا۔ شاعرات کے رنگ و روپ کو چمکانے کے لیے حسب روایت بیوٹی پارلر سے کاریگر بھی بلائے گئے۔ شاعرات چہرے کی رنگائ پتائ میں مصروف تھیں۔ موقع ملتے ہی کسی اچکے نے ان کے قیمتی زیورات اڑا دیے۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ عالم غم میں صف ماتم بچھ گئ۔ کاجل اور غازہ ہم کنار ہونے لگے۔ قافیہ اور ردیف کی رومانی فضا یکایک پتجھڑ کی نذر ہو گئ۔ گویا کوئ آسمانی قہر نازل ہو گیا ہو۔ سفینہ رقیب، فنا دہلوی اور قبا بلرامپوری کئ گھنٹوں تک بیہوش رہیں۔
معتبر ذرائع کے مطابق بھوپال مشاعرہ کیس میں اب تک سات ملزمین کو کورٹ سے ضمانت مل چکی ہے۔ کچھ ابھی بھی پولیس حراست میں ہیں۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق شاعروں کو چائے کے ساتھ نشیلی گولیاں دی گئ تھیں۔ ضرب المثل ہے کہ گڑ سے جو مر جائے اسے زہر سے کیوں مارے! بقول حضرت جون ایلیا “یہ ضروری تو نہیں کہ مجھے زہر پلایا جائے/عین ممکن ہے کسی پھول سے مارا جاؤں” حاسدین کو خدا غارت کرے! آمین! ثم آمین! افسوس کہ ازل سے ہی شاعروں کے خلاف سازشیں جاری ہیں۔ کبھی شاعروں کو مخرب اخلاق قرار دے کر شہر بدر کیا گیا تو کبھی ان کے راستوں میں سانپ بچھو چھوڑے گئے۔ جانے کیوں زمانہ شاعروں کی بیش قیمتی قربانیوں کو نظر انداز کرتا ہے؟ آپ لوگوں کو جان کر حیرانی ہوگی کہ شعروادب کی فکر میں شاعروں کی باضابطہ جماعتیں نکلنے لگی ہیں۔ تبلیغی جماعت کی طرز پر شاعروں کا قافلہ کندھوں پر پشتارہ لٹکائے جنگل جنگل اور صحرا صحرا بھٹک رہا ہے۔ دہلی و دبئی کی چمچماتی محفلوں سے نکل کر شاعر گاؤں کی چلچلاتی دھوپ میں جل رہا ہے۔ شاعروں کی قربانیاں ہرگز ہرگز ضائع نہ ہوں گی۔
سنا ہے کہ ضمانت پر رہا ہونے والے نثر نگاروں نے بھی آسمان سر پر اٹھا لیا۔ نثر نگاروں نے شاعروں کے خلاف مختلف شہروں میں جلسے منعقد کیے۔ پٹنہ کے گاندھی میدان میں”نثر نگار زندہ باد” کے عنوان سے ایک مذاکرہ منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں دہلی، بنارس، الہ آباد، گورکھپور، لکھنو اور دوسرے شہروں سے خاصی تعداد میں نثر نگار جمع ہوئے۔ مسلسل پانچ گھنٹے چلنے والے اس پروگرام میں نثر نگاروں نے شاعروں کے خلاف اپنے شدید رنج کا اظہار کیا۔ ممبئی کے مشہور انشائیہ نگار ریاض احمد فیضی نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا:
“حاضرین جلسہ! آپ لوگ بخوبی واقف ہیں کہ ادب کی جمہوری قدریں کوما میں چلی گئ ہیں۔ جلد ہی ان کی موت کا اعلان کیا جائے گا۔ تعصب اور تعفن زدہ اس ماحول میں نثر نگاروں کا دم گھٹ رہا ہے۔ شاعرحلق میں ہاتھ ڈال کر ہمارا نوالہ چھین رہے ہیں۔ نثر نگاروں پر زمین تنگ ہو چکی ہے۔ ہر طرف صرف مشاعروں کی آندھی چل رہی ہے۔ مشرق سے مغرب تک مشاعرہ۔۔زمین سے آسمان تک مشاعرہ۔۔دھوپ سے چھاؤں تک مشاعرہ۔۔ ہر طرف مشاعرہ ہی مشاعرہ۔ اب تو حد ہو گئ بھئ! اب تو ختنہ کے بعد بھی مشاعرے ہونے لگے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب کفن دفن کے بعد شعری محفلیں سجنے لگیں۔ یعنی زندگی کے ساتھ بھی اور زندگی کے بعد بھی! دبئی کے ایک مشاعرہ میں صدر محفل نے شاعروں کی فضیلت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا “اس دھرتی پر جب ایک بھی شاعر زندہ رہے گا، رب ذو الجلال اس کائنات کے نظام کو باقی رکھے گا۔ آمین! ثم آمین!”
دہلی کے نوجوان فکشن نگار شاکر فیضی نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “نثر نگاری نہایت صبر آزما اور ٹیبل ورک ہے۔ شاعری کی طرح نثری مال اڑانا ممکن نہیں جبکہ مشاعرہ باز شاعر اور شاعرات دوسروں کا کلام گاتے ہوئے آئے دن پکڑے جاتے ہیں۔ گلی محلوں میں پرچون کی طرح شاعری کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ غزلیں اور نظمیں نمک اور پیاز کی طرح فروخت ہو رہی ہیں۔ شاعروں کی تعداد پر اسرار طریقے سے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ شاہین باغ کے علاقے میں شاعروں اور انسانوں کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ شاعروں کے احترام میں خاکسار نے سڑک پر تھوکنا بند کر دیا ہے کہ خدا جانے کب کون سا شاعر وہاں سے گزر جائے۔
دہلی کی معروف خاتون فکشن نویس فگار عظیم بطور مہمان خصوصی شریک ہوئیں۔ دوران تقریر انہوں نے فرمایا “صاحباں! زمانے کی ستم ظریفی کہیے کہ نثر نگار دن بہ دن باریک ہوئے جاتے ہیں جبکہ شاعر بھاری بھرکم توند لیے پھر رہے ہیں۔ نثر نگاروں کے پاس ناخن کٹانے کے لیے پیسے نہیں ہیں اور شاعر حضرات رخ پر قمقمہ چپکائے جگمگا رہے ہیں۔ مفلسی کے ستائے ہوئے لاچار نثر نگاروں کو ایک جوڑی لنگی تک میسر نہیں جبکہ زرق برق سے جڑی خوشبو دار شیروانی میں ملبوس شاعر منھ میں پان دبائے مسکرا رہے ہیں۔ حاضرین! یاد رکھیں۔ یہ ناانصافی اور غیربرابری ہی فساد کی اصل جڑ ہے۔
بہار کے فکشن نویس احمد کبیر نے بطور مہمان اعزازی شرکت کی۔ موصوف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ “خدارا! مجھے شاعر اور شاعرات سے کوئی ذاتی بغض نہیں۔ میں تو خود مشاعروں میں تالیاں بجاتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ شاعری ادب کا جز ہے کل نہیں۔ ادب کو میر غالب اقبال فراق کے ساتھ ساتھ میر امن، بطرس بخاری، پریم چند اور بیدی کی بھی ضرورت ہے۔ شاعری کو اتنی بھی افضلیت حاصل نہ ہو جائے کہ دوسری اصناف پوری طرح سے بے روزگار ہو جائیں۔ زمانہ واقف ہے کہ مشاعروں میں چوری کا مال بیچتے ہوئے یہ برادری اکثر و بیشتر دھری جاتی ہے۔ ایک تازہ واقعہ پیش خدمت ہے۔ چند روز قبل علی گڑھ میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا۔ اس مشاعرہ میں شریک ایک بین الاقوامی شاعر نے اسٹیج سے ہی علیگڑھ کو الف سے ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس نئ تحقیق کے لیے دل کھول کر داد دیجیے۔ خیر! جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ اس نئے تحقیقی انکشاف کے بعد علی گڑھ کے پروفیسر حضرات ابھی تک گہرے کنفیوژن میں غرق ہیں۔ انھیں اندیشہ لاحق ہے کہ کوئی شاعر نما محقق شیروانی کو ص سے نہ قرار دے دے۔ چچا غالبؔ نے کیا خوب کہا ہے “شرم تم کو مگر نہیں آتی”
اس تقریب کی صدارت الہ آباد کے بزرگ نثر نگار ابرار گاندھی نے فرمائ۔ اپنا چشمہ درست کرتے ہوئے گویا ہوئے “حاضرین جلسہ! مشاعرہ باز شاعروں نے باضابطہ اپنے اپنے گروہ بنا رکھے ہیں۔ ان کے تار دبئی اور دوسرے خلیجی ممالک سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ قوالوں کو مات دینے والے ان گویوں کی شاعری سامعین سے دادوتحسین کی بھیک مانگتی ہوئ نظر آتی ہے۔ مشاعرہ باز شاعر شہوت انگیز جذبات اور ہیجان انگیز خیالات کی گٹھری لیے پھرتا ہے۔ خود کو میر و غالب کا وارث سمجھنے والے اس گروہ نے اردو زبان و ادب کو حسن و عشق اور لب و رخسار تک محدود کر دیا ہے۔ اس گمراہ کن صورت حال کے باعث لوگ اردو کو ایک ایسی نشہ آور محفل تصور کر بیٹھے ہیں، جہاں ہر آن جام و پیمانہ چھلک رہے ہوں۔۔۔دھیمی دھیمی آنچ پر کباب کی خوشبو اٹھ رہی ہو۔۔۔شباب انگڑائی لیتے ہوئے عالم سرمستی میں ڈوبا ہوا ہو۔۔آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ ہوری، بدھیا، کالو بھنگی اور سکینہ کا بھی راشن کارڈ بننا چاہیے تاکہ کہانی کے سارے کردار شاد و آباد رہ سکیں۔ اردو زبان و ادب کو لیلی مجنوں اور شیریں فرہاد کے خیالی غار سے آزاد کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے”
صدارتی خطبہ کے بعد مہمانوں میں بطور تبرک خرما تقسیم کیا گیا۔ سنا ہے کہ شاعروں پر رب کا خاص کرم ہوتا ہے۔ صحیفوں میں ذکر آیا ہے کہ خدا اس مخلوق کو ایک خاص سانچے میں ڈھال کر تیار کرتا ہے۔ عام انسانوں کے برعکس اللہ شاعروں کو پھیپھڑوں اور گردوں کی مانند ایک جوڑی دل کے ساتھ دنیا میں بھیجتا ہے۔ کیوں کہ ایک عدد دل کے سہارے غم جاناں اور غم دوراں دونوں کا بوجھ برداشت کرنا ممکن نہیں۔ امیر مینائی نے سچ ہی کہا ہے کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔ اس قابل رحم طبقہ کی زندگی میں درد ہی درد ہے۔ حضرت میاں فقیر فرماتے ہیں کہ شاعروں کے دل سے نکلی ہوئی آہ براہ راست عرش معلی تک پہنچتی ہے۔ خدا معاف فرمائے! یہ سب قیامت کی نشانیاں ہیں۔
![](https://hamariduniyanews.com/wp-content/uploads/2023/11/appeal.png)