ڈاکٹرتمیم احمد ناظم۔چیرمین۔ تنظیم فروغ اردو چنئی تمل ناڈو انڈیا 9444192513
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(سورۃ التحریم آیت نمبر 6) ترجمہ۔ اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ،اس پر سختی کرنے والے طاقتور فرشتے مقرر ہیں۔جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔اس آیت سے معلوم ہواکہ جہاں مسلمان پر اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے وہی اہلِ خانہ کی اسلامی تعلیم و تربیت کرنابھی اس پر لازم ہے۔لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئےکہ وہ اپنے بیوی بچوں اور گھر میں جو افراد اس کے ماتحت ہیں۔ان سب کو اسلامی احکامات کی تعلیم دے یادلوائے یونہی اسلامی تعلیمات کے سائے میں ان کی تربیت کرے تاکہ یہ بھی جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ جب تمھارے بچے بولنے لگیں تو” لاالہ الااللہ “سکھاؤ۔ پھر تمھیں کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہیے۔ کہ ان کا خاتمہ کب ہوگا۔ کیونکہ کلمہ انھیں آتا ہے۔ اور جب بچوں کو دودھ کے دانت گرنے لگیں۔یعنی 6 یا 7 برس کی عمر میں تو انھیں نماز کا حکم کروں۔(کنز العمال) اولاد کی تربیت صالح ہوتو ایک نعمت ہے ورنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے۔
دین وشریعت میں اولاد کی تربیت ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے۔”یوم اطفال”پورے بھارت میں یہ دن “14نومبر” کو منایا جاتا ہے۔جس کا مقصد بچوں کو درپیش مسائل کا سدباب اور بچوں کی فلاح و بہبود میں بہتری لانا طے ہوا تاکہ بچے معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔ بچے پھول جیسے ہوتے ہیں” اس قول کے دو پہلو ہیں، ایک یہ کہ بچے پھول کی طرح پیارے اور کسی بھی گھر یا معاشرے کی رونق ہوتے ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بچے ذہنی اور جسمانی طور پر حساس، نازک اور ناپختہ ہوتے ہیں، اس لئے انہیں والدین اور معاشرے کی طرف سے خاص خیال، پیار اور تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے قوم کا مستقبل ہیں بچوں کے حقوق کا تحفظ، ان کی فلاح و بہبود، بہترین تعلیم و تربیت کسی بھی قوم کا اولین مقصد ہونا چاہیے۔بچوں کی تعلیم و تربیت کا آغاز ان کی پیدائش کے ساتھ ہی ہوجاتا ہے۔
بچوں کی تعلیم و تربیت میں ماں باپ کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ماں کی گود کو پہلی درس گاہ کہا گیا ہے ۔ تعلیم اور تربیت یہ وہ دو چیزیں ہیں جو انسانی روح کی غذا ہیں۔بچہ جب دنیا میں آکر اپنی آنکھیں کھولتا اور اس کے کان میں جب اذان دی جاتی ہے اسی لمحے سے اس کی تربیت کا آغاز ہوجاتا ہے۔ ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ بچہ اپنے ماحول کا اثر بہت جلدی قبول کرلیتا ہے اور حقیقت بھی ہے ۔ اپنے ارد گرد جو وہ سنتا ہے، دیکھتا ہے اسے اپنا لیتا ہے۔ بچہ عمر کے اس دور میں صحیح اور غلط میں امتیاز نہیں کر پاتا کیونکہ وہ تو سیکھنے کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ جو دیکھتا ہے سنتا ہے اسی کے تناسب سے بچے کے ذہن میں ایک خاکہ تیار ہوتا ہے جو اس کے ذہن میں محفوظ ہوتا رہتا ہے۔
ماہرین نفسیات یہ مانتے ہیں کہ ایک بچے کا دماغ کورا کاغذ اور خالی سلیٹ کے مانند ہوتا ہے ۔ ابتدائی عمر سے لے کر اسے شعور آجانے تک یہ والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اسے کیسا ماحول فراہم کر رہے ہیں کیوں کہ وہ جس ماحول میں جیسے لوگوں کے درمیان رہے گا جو انھیں کرتا دیکھے گا وہی اس کورے کاغذ یا سلیٹ پر پر تحریر ہوجائے گا۔ اب جو نقش ہوگا وہ تاعمر محفوظ رہے گا۔ بچہ جس ماحول میں رہے گا، جن کے ساتھ نشست و برخاست ہوگا انہیں کے اطوار و آداب وہ از خود سیکھتا جائے گا ۔ بتدریج یہ ذمہ داری چند سال بعد اساتذہ کے کندھوں پر آجاتی ہے۔ معاشرے کے دو اہم ترین عناصر والدین اور اساتذہ ہیں کہ دونوں پر ہی بچے کی تعلیم و تربیت منحصر ہوتی ہے ۔عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تربیت والدین کی ذمہ داری ہے اور تعلیم اساتذہ کی۔ جبکہ عملی طور پر ایسا نہیں ہے ۔
استاد پر اگرچہ تعلیم کی ذمہ داری زیادہ ہے لیکن وہ تربیت کے فرض سے مبرا نہیں ہیں ۔ اسی طرح والدین پر تربیت کی ذمہ داری زیادہ ہے لیکن وہ بچے کی تعلیم سے خود کو الگ نہیں کر سکتے۔دنیا کے ٹاپ فیشن ہاؤسز کی بنیاد رکھنے والے مشہور فرینچ ڈیزائنر کرسچن ڈی اَور نے کہا تھا.حقیقی شائستگی کا راز عمدہ تربیت ہے۔ بیش قیمت ملبوسات حیران زیبائش اشیاء، اور خیرہ کن حسن کی عمدہ تربیت کے مقابل کوئی حیثیت نہیں ہے۔اسلام میں استاد کو روحانی ماں باپ کا درجہ اسی لیے دیا گیا ہے کیوں کہ اگر والدین بچے کی ظاہری شخصیت کو سنوارتے ہیں تو استاد ان کے باطن کو نکھارتے ہیں۔ کیا آج کے اساتذہ تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تربیت ان خطوط پر کر رہے ہیں جو بحیثیت استاد ان کی ذمہ داری ہے؟
ایک استاد اپنے طلبہ کے لیے رول ماڈل ہوتا ہے۔ طلبہ استاد کے لیکچر سے زیادہ اس کے عمل کا اثر قبول کرتے ہیں۔ ایک بہترین استاد وہی ہوتا ہے جو اپنے طلبہ میں جن اوصاف کو وہ دیکھنا چاہتا ہے انھیں اپنی ذات کا حصہ بنالے۔ اپنے طلبہ کو جن عادات و خصوصیات کا آئینہ دار بنانا چاہتا ہے انھیں خود پر لازم و ملزوم کرلے۔ اگر اساتذہ خوش اخلاقی، صلہ رحمی، صبر و تحمل کا پیکر ہوں تو ان کے تلامذہ میں بالخصوص یہ عادات پائی جائیں گی اور یہی تربیت کی عمدہ مثال ہے۔دنیا بھر میں یہی وجہ ہے کہ ہر معاشرے اور ہر قوم میں تعلیم اور تربیت کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے ۔ اسی لئے تو یہ کہا گیا کہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی آغوش ہوتی ہے ۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ ایک ماں اچھی تعلیم و تربیت سے ایک اچھی نسل تیار کرتی ہے ۔
بچے کی تعلیم اور تربیت گھریلو سطح پر فقط ماں پر ہی نہیں بلکہ ماں اور باپ دونوں کی زمہ داری ہے اور بچے کے لئے تو پہلا رول ماڈل ماں باپ ہی ہوتے ہیں ۔ہمارے ہاں مائیں بیٹیوں کو زندگی کے مختلف مراحل پر اچھی بیوی بننے کے فارمولوں سے تو آگاہ کرتی رہتی ہیں لیکن ایسا شاز و نادر ہے کہ لڑکیوں کو شادی سے پہلے اچھی ماں بننے کے بارے میں اس کے فرائض اور خصائص سے آگاہ کیا جائے ۔ چاہیئے تو یہ اس کام میں ماں اور باپ دونوں شرکت کریں لیکن جانے کیوں معاشرتی بندش از خود لگا لی گئی کہ بیٹی کے تمام معاملات کی زمہ داری فقط ماں پر ڈال دی گئی اور باپ کو بری الذمہ کر دیا گیا ۔ دوسری طرف ایسی ہی صورتحال بیٹوں کے پرورش کے معاملے میں بھی ہوتی ہے۔جس نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں گھریلو سطح پر ماں اورباپ کو یکجا ہونے کی بجائے الگ الگ کر دیا ہے۔ اس سے بھی اہم ترین نقطہ یہ ہے کہ ہم میں سے وہ لوگ جو تعلیمی ذمہ داری استاد اور تعیلمی ادارے پر ڈالتے ہیں وہ یہ کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ بچہ اسکول ایک مخصوص عمر میں جانا شروع کرتا ہے اور اس سے پہلے بچے کی آدھی تعلیم اور تربیت گھر پر ہو رہی ہوتی ہے، اور اسی گھر سے حاصل کردہ تعیلم اور تربیت لے کر بچہ اسکول جاتا ہے جاتا ہے جہاں پر اساتذہ بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہیں ۔ قابل غور یہ بھی ہے کہ اساتذہ اور والدین کوئی الگ الگ شعبہ نہیں ، حقیقت میں یہ دونوں ایک دوسرے کے کام کو آگے بڑھاتے ہیں اور انہیں جلا بھی بخشتے ہیں۔
چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔
۔1۔ والدین باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کچھ وقت نکال کر بچے سے اسکول میں گزارے ہوئے وقت اور کام کے بارے میں پوچھیں۔.
۔2 اس کے دوستوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے موضوعات کو جاننے کی کوشش کریں آیا وہ اسکول یا مدرسہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کن موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں یا کرنا پسند کرتے ہیں؟
۔3 کلاس روم کے ماحول اور طالب علموں پر اساتذہ کی توجہ کے بارے میں بھی جانیں۔
۔4 اسکول سے ملے ہوئے ہوم ورک پر توجہ دے کر اسے مکمل کروائیں اور کوشش کریں کہ بچہ اپنا ہوم ورک خود سے مکمل کرے۔
۔5 اسکول اور والدین کے درمیان روابط کی ڈائری کو چیک کرتے رہیں تاکہ اساتذہ کے تبصرے یا ہدایت سے بر وقت وقف ہو سکیں۔
۔6 والدین کا وقتاً فوقتاً بچوں کے اسکول میں جانا بھی ضروری ہے تاکہ والدین اور اساتذہ کے درمیان ایک خوشگوار رابطہ بنا رہے۔یہ وہ بہت چھوٹے چھوٹے نکات ہیں جن پر برصغیر کے معاشرے میں بہت کم توجہ دی جاتی ہے ۔ نہ جانے ہم کیوں چند مخصوس چیزوں کو ہی نصاب سمجھتے ہیں ، مثلا مضمون اور ان کے نمبروں پر توجہ دی جاتی ہے جبکہ معاشرت اور سماج میں بچے کا تعلق کسی نصاب کا حصہ نہیں بنتا ۔ والدین اگر یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم کی ذمہ داری فقط استاد کی ہے تو وہ بلا شبہ غلطی پر ہیں۔ اسی طرح جو اساتذہ تربیت کی کلی زمہ داری والدین پر ڈالتے ہیں وہ بھی درست نہیں ہیں ۔ہم نے ابھی تک اس مسلے کے دو کرداروں کی بات کی ہے جو استاد اور والدین ہیں ۔ لیکن سب سے اہم کردار خود اس بچے کا ہے جو اولاد بھی ہے اور شاگرد بھی ۔ بچوں کا گھر میں اپنے بہن بھائیوں سے سلوک اور اسکول میں اپنے منتخب دوستوں اور عمومی کلاس فیلوز کے ساتھ ان کا رویہ اہم ترین عناصر ہیں۔ اس پر والدین اور اساتذہ کو نظر رکھنی چاہیے استاد کی عزت شاگرد کا اولین فرض ہے۔ لیکن جدت کے نام پر بے راہ روی اختیار کرنے والے معاشرے میں ایک سوچ اب یہ داخل ہوچکی ہے اکثر طالب علم یہ سوچتے ہیں استاد ایک ایسا ملازم ہے جسے وہ ایک یا دو گھنٹے پڑھائی کا معاوضہ دیتے ہیں ۔ اور اسی طرح تعلیم جو اب بہت حد تک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے وہاں استاد بھی یہی خیال کرتا ہے اسے بچے کو ایک یا دو گھنٹے پڑھانا ہے اور معاوضہ لینا ہے اور بس ۔ ان حالات میں ہمارے بزرگوں کا وہ فلسفہ لگ بھگ دم توڑ چکا ہے کہ استاد باپ کے برابر ہوتا ہے ۔ کسی بھی معاشرے کے علمی اور تربیتی نظام میں اگر یہ بنیادی چیزیں نہیں ہونگی تو بچوں کی بے راہ روی کاتناسب بڑھ جائے گا۔1۔ بچے کو اولاد اور طالب علم کے طور پر استاد اور والدین کا احترام لازم ہے۔
۔2۔ بچے کو اتنی آزادی دی جائے کہ وہ استاد کے طرز تعلیم اور اس کے رویے سے والدین کو یا اسکول کی انتظامیہ کو آگاہ کر سکیں۔ 3۔ والدین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسکول کو گھر کی تعلیم و تربیت کا تسلسل سمجھیں ۔ یہ سارا عمل یک طرفہ نہیں ہے کہ اس کا سارا بوجھ بچے ہی پر ڈال دیا جائے اس عمل میں والدین کے کردار پر قدرے تفصیل سے گفتگو کی ہے،لیکن استاد کے کردار کو اگر چند اہم نقاط میں بیان کریں تو وہ یوں ہوں گے.4۔ استاد خود کو معاوضہ حاصل کرنے والا فرد نہ سمجھ کر ایک مثالی معلم کا کردار ادا کرے.5۔ استاد کایہ سمجھنا کہ بچے میں سچ جھوٹ کی تمیز کے ساتھ ساتھ غلط اور درست کا فرق بتانا والدین کی ذمہ داری ہے یہ قطعی غلط رویہ ہے بلکہ استاد بھی برابر ذمہ دار ہے.6۔ استاد و شاگرد کا رشتہ ادب و احترام کے ساتھ شفقت کا بھی متقاضی ہے۔ اساتذہ کو اس قدر نرم دل ہونا چاہیے کہ طلبہ ان سے باآسانی بنا کسی ہچکچاہٹ کے کسی بھی علمی و ذاتی موضوع پر گفتگو کرسکیں۔7.اساتذہ کی ذات کو اتنا ہی سخت گیر بھی ہونا چاہیے کہ طلبہ کے لیے اساتذہ کے ساتھ کسی بھی قسم کی نازیبا گفتگو یا بے ادبی کا تصور بھی محال ہو۔8۔ ماں جیسے اپنے ہر بچے کی نفسیات سے واقف ہوتی ہے بالکل اسی طرح ایک استاد کو بھی اپنے ہر طالب علم کی نفسیات سے واقفیت ہونی چاہیے چونکہ استاد اس باغبان کی طرح ہوتے ہیں جو اپنے باغ کے ہر پھول اور ہر پودے کے بارے میں آگاہی رکھتا ہے اورہر پودے کی نگہداشت اس کی نفسیات کے مطابق کرتا ہے۔الغرض بچے کی تعلیم و تربیت والدین اور اساتذہ کی باہمی ذمہ داری ہے۔
اساتذہ ہی اپنی شفقت اور محنت سے طلبہ کو کندن بناتے ہیں۔عام طورپر یہ سمجھاجاتا ہے کہ استاد کا کام صرف تعلیم دینا ہوتا ہے ا ور تربیت کرنا والدین کا فرض ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ تعلیم اور تربیت دو مختلف چیزیں نہیں اور جدید تعلیمی نفسیات نے دونوں کو کچھ اس طور پر یکجا کیا ہے کہ تعلیم بغیر تربیت کے اور تربیت بغیر تعلیم کے اپنا کوئی مقام نہیں رکھتیں،اساتذہ اوروالدین کا باہمی رابطہ ان کی گاہے گاہے ملاقاتیں دونوں کے لیے انتہائی ضروری ہیں،والدین کے لیے تو اس واسطے کہ وہ بچے کی اسکول کی مصروفیات اس کی تعلیمی ترقی کھیل کے میدان میں اس کی کار گزاریوں نیز ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ اس کے روابط سے واقف ہوسکیں،اور اساتذہ کے واسطے اس لیے کہ وہ بچے کو مکمل طور پر سمجھ سکیں اور اس کی نجی زندگی کا کوئی رخ ان سے پوشیدہ نہ رہے۔
والدین ،استاد کو گھر میں بچے کے رویے اس کے مزاجی رجحانات اس کی عادات اور اس کی پسند و ناپسند کے بارے میں بہت کچھ بتاسکتے ہیں گھر میں ہونے والے مختلف واقعات و حالات اور حادثات بچے کی جذباتی زندگی پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں،استاد کا ان سب سے باخبر رہنا نہایت ضروری ہے اساتذہ اور والدین کا باہمی ربط اس لیے بھی بے حد ضروری ہے کہ والدین بچے کا بہت قریبی علم رکھتے ہیں اور اساتذہ بچوں کی نفسیات کے بارے میں ماہرانہ علم رکھتے ہیں لہٰذا دونوں فریقوں کے ملنے اور تبادلہ خیال کرنے سے ایسے نتائج مرتب ہوسکتے ہیں جو بچے کی زندگی پر خوشگوار اثر ڈالیں اور جن سے بچے کے لیے مفید رہنمائی حاصل ہوسکے،استاد اور والدین دونوں کے پیش نظر ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے:بچہ اور اس کی بہبود پس جب دونوں ایک ہی مقصد کے لیے کام کرتے ہیں تو اگر ان میں اشتراک و تعاون ہو وہ ایک دوسرے سے ملتے رہیں ایک دوسرے کے نظریات اور ایک دوسرے کی مشکلات کا علم رکھیں تویہ کام یقینا زیادہ احسن طریق پر انجام پاسکتا ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو اسکی مرضیات پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔اور ہمارے بچوں کو ماں باپ کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک اور آخرت کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔آمین یا رب العالمین
شعبہ نشرواشاعت۔ انجمن قاسمیہ پیری میٹ چنئی ٹمل ناڈو انڈیا
anjumanqasimiyah@gmail.co