ڈاکٹر تمیم احمد چیرمین.تنظیم فروغ اردو چنئی ٹمل ناڈو انڈیا
عالمی یوم اردو کے موقع پر 9.نومبر 1877ء برصغیر ہند و پاک کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے۔اس دن شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ رحمہ اللہ پیدا ہوئے تھے۔ سیالکوٹ کے عظیم والدین شیخ نور محمد اور امام بی بی کے فرزند تھے۔علامہ اقبال نے عالمگیر شہرت پائی۔آپ کی وفات کے بعد لوگ آپ کی شاعری پر پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ اور دنیا آپ کے فلسفہ سے مستفید ہورہی ہے۔آپ کے نام پر یونیورسٹی سمیت متعدد ادارے قائم ہیں۔لوگ آپ کی عظمت کو سلام ا ور خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ہر مکتب فکر کےعلماء کرام آپنے خطابات میں آپ کے کلام کو پیش فرماتے ہیں۔ اللہ رب العزت کے فضل وکرم سے آپ کو بچپن میں گھر کا بہترین ماحول ملاتھا۔ اورآپ کومیر حسن جیسے اچھے اساتذہ بھی ملے تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے شہر میں حاصل کی ۔اس کے بعد لاہور اور جرمنی سے تعلیم حاصل کی۔آپ نے گورنمنٹ کالج میں پڑھایا اور وکالت بھی کی۔آپ نے سیاسیات میں بھی اپنے جوہر دکھائے۔آپ نے ہی سب پہلے دوقومی نظریہ کو پیش کیا۔علامہ اقبال ہر دور میں مقبول تھے۔ دینا کے دیگر ممالک نے آپ کے کلام اور افکار سے استعفادہ حاصل کرنے کی بھرپور سعی کی۔1933 ء میں ا فغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کے والد بادشاہ نادر شاہ نے علامہ اقبالؒ کو دعوت دی تاکہ کابل یونیورسٹی کے بارے میں صلاح و مشورے کرسکیں۔ علامہ اقبالؒ اس کی دعوت پر کابل گئے اور بادشاہ نادر شاہ کو کابل یونیورسٹی کے ڈویلپمنٹ کے لئے کار آمد اور مفید مشورے دیے۔ افغانستان میں علامہ اقبالؒ پر متعدد مقالےجات شائع ہوچکے ہیں۔آپ کا کلام عملی و ادبی مجلات میں تواتر سے شائع ہوتا رہا۔ افغانستان کی طرح ایران میں بھی علامہ اقبالؒ کو بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ایران میں 9 نومبر اور 21 اپریل کو یوم اقبال منایا جاتا ہے۔ “حسیننہ ارشاد” تہران کے ایک بڑے معروف عملی مرکز کی مسجد کی چھت پر اقبال کے اشعار تحریر ہیں۔ایران کے ڈاکٹر احمد علی رجائی نے علامہ اقبال کے بارے میں کہا تھا کہ ” میرے خیال میں اقبال ایک نو دریافت براعظم کی مانند ہیں جس میں کتنی ہی دلاویز اور ناقابل غور چیزیں ہنوز باعث طلب ہیں۔”اسی طرح علامہ اقبالؒ کو مغرب میں بھی مقبولیت حاصل ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر آر اے نکلسن نے علامہ اقبالؒ کی کتاب اسرار خودی کا انگریزی میں “دی سیکریٹ آف دی سیلف” کے نام سے ترجمہ شائع کیا۔ وی جے کیرنن نے علامہ اقبالؒ کے کلام کا ترجمہ ” محمد اقبال پویٹ فرام اقبال”کے نام سے شائع کیا ۔اے جے آربری نے رموز بے خودی ، پیام مشرق ،جاوید نامہ اور زبور عجم کا ترجمہ کیا۔ جرمنی کی ڈاکٹر اینی میری شمل نے علامہ اقبال پر دو کتابیں ” اینڈ فلاسفر” اور “گیبریل سوئنگ” لکھیں۔انھوں نے جاوید نامہ اور پیام مشرق کا جرمن زبان میں تراجم کیے اور جاوید نامہ کا ترجمہ ترکی زبان میں کیا تھا۔فرانس کی ایوامیریووج نے اقبالؒ کی ” تشکیل جدید الہیات اسلامیہ” کے علاوہ پیام مشرق اور جاوید نامہ کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کیا۔فرانسیسی خاتون لوس کلوڈ متیج نے اقبالؒ کے فلسیفانہ تصورات کے بارے میں کتاب لکھی ۔بعدازاں اس کتاب کا ترجمہ ارود میں ” فکر اقبال کی تعارف”اور انگریزی میں “دی تھاٹ آف اقبال آف انٹروڈیکشن ” ہوچکا ہے۔روس میں نتالیا پر گرینا نے اقبال پر تحقیقی مقالہ لکھا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔روسی خاتون ایل آر گورڈن پولنکایا اور ایک اور خاتون ایم ٹی ستیپنتیس نے اقبال پر مقالے لکھے۔اس طرح روس کے نکو لے پیٹروچ اینی کیف نے ” محمد اقبالؒ ، ممتاز مفکر اور شاعر ” کے نام سے تنصیف لکھی۔امریکہ میں ڈاکٹر ایل ایس مے نے “اقبال ہز لائف اینڈ ٹائم” کے نام سے کتاب لکھی۔ اٹلی کے آرتھر جیفر اور تو سبیلر نونے اقبال کے فلسفہ اور شاعری پر کتا بیں لکھیں.
چیکوسلواکیہ کے ژان ماریک نے اقبال پر مقالہ لکھا اور کینڈا میں ڈاکٹر شیلا میکڈوف نے اقبال کے کلام پر مقالہ لکھا۔الغرغ افکار اقبال پر دنیا کے ہر حصے میں مقالہ جات اور کتابیں لکھ چکی ہیں۔ دنیا اقبالؒ کے افکار سے مستفید ہورہی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں بھی علامہ اقبال کے کلام اور افکار سے کماحقہ استعفادہ حاصل کرنا چاہیے۔کلامِ اقبالؔ کی پذیرائی عوام و خواص میں بالکل ابتدا سے ہی ہونے لگی۔ اقبالؔ اپنی جوانی کے زمانے میں جو نظمیں انجمن حمایتِ اسلام لاہور کے جلسوں میں پڑھتے تھے تو دس دس ہزار آدمی ان کی نظم سنتے تھے اور جب تک نظم ختم نہ ہوجائے۔ لوگ دم بخود بیٹھے رہتے تھے۔ ان کے اشعار لوگوں کی زبانوں پر جاری ہوگئے۔ ‘بچے کی دُعا’ اور ‘ترانہ ہندی’ کو ایسی مقبولیت و شہرت حاصل ہوئی کہ پورے ہندوستان میں بچے بچے کو یہ نظمیں یاد ہوگئیں۔ پھر اقبالؔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یورپ چلے گئے۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد ان کی شاعری کا آہنگ اور تیز ہوگیا۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کے خلاف عیسائی ممالک کی سرگرمیاں اور ریشہ دوانیاں بڑھ گئیں اور انھوں نے مسلمان ملکوں پر حملے کردیے۔ اس زمانے میں اقبالؔ نے بڑی ولولہ انگیز اور پُرجوش نظمیں لکھیں جو پورے ملک میں تیزی سے پھیل گئیں۔ اس زمانے کی نظموں کے بارے میں مولانا ظفر علی خاں نے لکھا ہے۔
“جنگِ طرابلس کے زمانے میں اقبالؔ کا کلام مسلمانانِ عالم پر عربوں کی رجز خوانی کا اثر رکھتا تھا۔ ہندوستان افلاس کی وجہ سے توپ و تفنگ نہیں رکھتا لیکن اقبالؔ کا کلام رکھتا ہے۔” (سب رس، اقبال نمبر)
اُسی زمانے میں اقبالؔ نے ‘ترانہ ملّی’ لکھا ؎
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
یہ نظم مسلمانوں کے جلسوں میں ہر جگہ پڑھی جانے لگی اور لوگوں کے لہو کو گرمانے میں اس نظم نے بڑا کام کیا۔ روایت ہے کہ 1924ء میں جب شاہ امان اللہ خاں والیِ افغانستان اپنی حکومت کے انتہائی عروج پر تھے۔ اقبالؔ کا کلام کابل کے ایک عظیم الشان جلسے میں پڑھا گیا جس میں شاہ ممدوح کے علاوہ وزرا، سفرا، عمائدینِ شہر اور فوجی حکام شامل تھے۔ یہ تقسیمِ انعامات کا جلسہ تھا جس میں اقبالؔ کا مشہور ترانہئ ملّی ‘مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا’ بچوں نے اپنے سادہ لہجے میں سنایا پھر فوجی باجے نے اس ترانے کو دُہرایا تو تمام حاضرین پر عجیب رقّت اور جوش و وَلولے کی کیفیت طاری ہوگئی۔اقبالؔ کی شاعری کی مقبولیت.ہندوستان کی حدود سے باہر سب سے زیادہ ایران میں ہوئی۔ اقبالؔ نے اردو کے مقابلے میں فارسی میں زیادہ لکھا ہے۔ وہ اہلِ ایران اور دیگر فارسی داں کی صورت میں اپنے لیے قارئین کاوسیع تر حلقہ پیدا کرنا چاہتے تھے۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔ آج ایران میں اقبالؔ کسی ایرانی شاعر کی طرح مقبول ہیں۔ وہاں کے ناقدین نے ان کے فکر و فن پر گراں قدر مقالات لکھے اور معتبر و جیّد شاعروں نے اقبالؔ کو منظوم خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اس سلسلے میں صادق سرمد ملک الشعراء بہار سعید نفیسی علامہ گلچینِ معانی، امیر شفائی نوا، منوچہر طالقانی، دکتر قاسم رضا، علی، ادیب برومند، عباس فرات اورلطف علی صورت گر جیسے شعراے فارسی کے نام بطور خاص لیے جاسکتے ہیں۔ ایران کے ملک الشعراء محمد تقی بہار نے مندرجہ ذیل لفظوں میں اقبالؔ کی عظمت و انفرادیت کا اقرار کیا ؎
بیدلے گر رفت اقبالے رسید
بیدلاں را نوبتِ حالے رسید
قرنِ حاضر خاصہئ اقبال گشت
واحدے کز صد ہزاراں برگزشت
ہیکلے گشت از سخن گوئی بپا
گفت، کلّ الصید فی جوف الفرا
شاعراں گشتند جیشے تار و مار
ویں مبارز کرد کارِ صد سوار
ہاں سلامے می فرستم سوئے یار
بے ریا تر از نسیمِ نو بہار
ان اشعار کا مفہوم یہ ہے کہ –
“اگر ایک بیدلؔ چلے گئے تو ایک اقبالؔ (جیسا عظیم شاعر) جلوہ افروز ہوگیا۔ عاشقوں کے لیے ایک نیا اور تازہ موقع آگیا۔ موجودہ صدی اقبالؔ کی صدی ہوگئی۔ وہ ایک ایسا شاعر ہے، جو لاکھوں شاعروں سے آگے بڑھ گیا۔ ایک مضبوط سخنور پیدا ہو گیا اورتمام شعراشکست خوردہ فوج کی طرح میدانِ شاعری سے بھاگ نکلے اور بے نام و نشاں ہوگئے۔ بس اُس ایک شہسوارِ سخن نے اکیلے میدانِ شاعری میں اپنی فتح و کامرانی کا جھنڈا نصب کردیا۔ ہاں میں اپنے دوست (اقبالؔ) کو سلام بھیج رہا ہوں، ایسا پُرخلوص سلام جو موسمِ بہار کے بادِ نسیم سے بھی خالص اور صاف و شفاف ہے۔”
شروع میں بعض اہلِ ایران نے اقبالؔ کی فارسی پر اعتراضات کیے تھے لیکن اب جو صورتِ حال ہے، وہ بالکل بدلی ہوئی ہے۔ ایران کے مشہور نقاد داؤد شیرازی نے تو اقبالؔ سے متعلق یہاں تک لکھ دیا:
“اقبال سبک و مکتب جدیدی در شعر فارسی تاسیس کردہ کہ حقا باید سبکِ او را ‘سبکِ اقبال’ نامید و قرنِ ادبی حاضرہ را باید بنامِ نامیِ او مزیّن ساخت۔”
ترجمہ: “اقبالؔ نے جدیددَور کی فارسی شاعری میں ایک نئے اسلوبِ بیان کی بنیاد رکھی۔ حق تو یہ ہے کہ اس اسلوبِ بیان کو ‘سبکِ اقبال’ کے نام سے یاد کرنا چاہیے اور آج کے ادبی عہد کو اقبال کے نامِ نامی سے موسوم کرنا چاہیے۔”
اور علی صادق سرمد نے علامہ اقبال سے متعلق کہا ؎
اگرچہ مرد بمیرد بگردشِ مہ و سال
نمردہ است و نمیرد محمد اقبال
ایک اور ایرانی دانشور ڈاکٹر احمد علی رجائی نے اقبالؔ سے متعلق بڑی خوبصورت بات کہی ہے:
“اقبالؔ ایک نو دریافت براعظم کی مانند ہے جس میں کتنی ہی دلآویز اور قابلِ غور چیزیں ہنوز بحث طلب ہیں۔”
فارسی میں اقبالؔ پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں مگر یہاں کتابوں کی فہرست پیش کرنا نہ ممکن ہے اور نہ مناسب۔ البتہ ڈاکتر علی شریعتی نے جو بیسویں صدی کے نامور ایرانی دانشوروں میں شمار کیے جاتے ہیں، اقبالؔ سے متعلق ایک بہت عمدہ کتاب ‘اقبال مصلحِ قرنِ آخر’ کے نام سے لکھی جس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر کبیر احمد جائسی نے کیا ہے۔ترکی میں اقبالؔ شناسی کی روایت بھی مضبوط ہے۔ وہاں کے مشہور شاعر عاکفؔ نے سب سے پہلے کلامِ اقبالؔ کی طرف توجہ کی۔ انھوں نے علامہ اقبالؔ کی زندگی ہی میں ان کے اشعار کے ترکی زبان میں تراجم کیے۔ اسی شاعر نے مصر میں ڈاکٹر عبدالوہاب عزام کو اقبالؔ سے متعارف کرایا اور کلامِ اقبالؔ کے محاسن سے عزام کو روشناس کرکے اس کے عربی ترجمے کی طرف راغب کیا۔ بعد میں ترکی فاضل حسین دانشؔ نے اقبالؔ کی بہت سی نظموں کا ترجمہ کیا اور پیامِ مشرق پر تبصرہ بھی لکھا جس میں علامہ کے نظریات کی وضاحت صراحت کی۔ بعد کے زمانے میں ڈاکٹر علی نہاد تارلان اور ڈاکٹر عبدالقادر قرہ خان نے اقبال شناسی میں خاص طور پر نام پیدا کیا۔ ڈاکٹر تارلان نے ‘پیامِ مشرق’ اور ‘زبورِ عجم’ کی مختلف نظموں کے علاوہ ‘ارمغانِ حجاز’ کی فارسی نظموں کے تراجم کیے۔ انھوں نے ‘ضربِ کلیم’ کا بھی ترکی زبان میں ترجمہ کیا۔ نیز اقبالؔ کے افکار و نظریات کی تشریح میں بعض اہم مقالات لکھے۔ ڈاکٹر عبدالقادر قرہ حان نے ترکی زبان میں ‘ڈاکٹر محمد اقبال’ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اقبالؔ کی سوانح حیات اور فکر و فن کی تشریح کے علاوہ منتخب کلام کے تراجم شامل ہیں۔ اس کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر قرہ حان نے انگریزی زبان میں لکھا ہے۔ یہ کتاب یونیسکو کے زیرِ اہتمام 1974ء میں استنبول سے بہت خوبصورت انداز میں شائع ہوئی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ترکی کی یونیورسٹیوں میں اقبالؔ مطالعہ و تحقیق کا موضوع بن گئے ہیں۔
عربی شاعروں میں سب سے پہلے ڈاکٹر عبدالوہاب عزام اقبالؔ کے نام اور کلام سے واقف ہوئے۔ وہ قاہرہ میں فارسی ادب اور تاریخِ اسلام کے پروفیسر تھے۔ ترکی کے شاعر عاکفؔ نے انھیں اقبالؔ سے متعارف کرایا پھر عزام پوری زندگی اقبالؔ پر عربی زبان میں لکھتے رہے۔ 1931ء میں جب علامہ اقبالؔ ‘گول میز کانفرنس’ کے سفر کے دوران مصر گئے تو ڈاکٹر عزام اقبالؔ سے ملاقات کو آئے۔ اقبالؔ کے مطالعہ سے عزام کا فکری رابطہ تو علامہ اقبالؔ سے پیدا ہو ہی چکا تھا، اس ملاقات کے بعد ان سے قلبی رابطہ بھی پیدا ہوگیا۔ پروفیسر حسن الاعظمی نے 1937ء میں پہلی بار اقبالؔ کے افکار کا عربی میں باضابطہ ترجمہ کیا۔ پھر ان پر متعدد کتابیں لکھیں۔ مصر کا ایک سیاح احمد رفعت اپنی سیاحت کے دوران جب لاہور آیا تو اس نے علامہ سے ملاقات کی اور ان کی بہت سی نظموں کا عربی میں ترجمہ کیا۔ اس کے یہ ترجمے مصر کے مشہور اخبار ‘الاہرام’ میں شائع ہوئے۔ عالم اسلام کے معروف عالمِ دین اور اردو و عربی ادب کے اسکالر ہندوستان کی شان مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے علامہ اقبالؔ پر متعدد مضامین عربی زبان میں لکھے جو عربوں کی محفلوں میں پڑھے گئے۔ اور وہاں کے ریڈیو سے نشر ہوئے۔ بعد میں مفکر الاسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحب رحمہ اللہ کے یہ مضامین ‘روائعِ اقبال’ کے نام سے کتابی صورت میں دمشق، بیروت اور کویت سے کئی بار شائع ہوئے۔ مولانا کی اس کتاب کا اردو ترجمہ ‘نقوشِ اقبال’ کے نام سے چھپا۔مغرب میں اقبالؔ کا اولین تعارف ان کی فارسی مثنوی ‘اسرارِ خودی’ سے اس وقت ہوا جب اس کا انگریزی ترجمہ کیمبرج کے پروفیسر ڈاکٹر نکلسن نے 1920ء میں کیا۔ یہ ترجمہ مغرب میں اقبالؔ کی شہرت کا سنگ بنیاد بنا۔ اس ترجمے پر پروفیسر ای-جی- براؤن، پروفیسر ڈِکنسن، ای- ایم- فارسٹر اور سر ہربرٹ ریڈ جیسے مقتدر ناقدوں اور دانشوروں نے تبصرے اور مقالات لکھے۔ پھر پروفیسر آرتھر آربری نے ‘جاوید نامہ’ کا ترجمہ 1946ء میں اور ‘رموزِ بیخودی’ اور ‘زبورِ عجم’ کا ترجمہ 1948ء میں کیا۔ انھوں نے ‘شکوہ’ اور ‘جوابِ شکوہ’ کے علاوہ ‘پیامِ مشرق’ کی رباعیوں کے ترجمے بھی کیے۔ پروفیسر آربری اقبالؔ کے بڑے مداح اور پرستاروں میں تھے۔ پروفیسر ای-جی- براؤن نے اپنی کتاب ‘لیٹریری ہسٹری آف پرشیا’ کی چوتھی جلد میں اقبالؔ کا ذکر عمدہ الفاظ میں کیا ہے۔برطانیہ کے ان مصنفین کے مضامین اور ترجموں کے ذریعہ انگریزی کے امریکی مصنفین بھی واقف ہوئے۔ وہاں کے دانشوروں میں ڈاکٹر ایل.ایس.ایلسن، مارگن کینتھ، ولیم او ڈگلس اور پروفیسر ڈاکٹر شیلا میکڈونف نے اقبالؔ کی شاعری اور فکر پر بڑے وقیع اور فکر انگیز مقالے لکھے۔جرمنی سے اقبالؔ کو خصوصی تعلق ہے۔ انھوں نے وہاں کی میونخ یونیورسٹی سے پی.ایچ.ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی اور وہاں کے زمانہئ قیام کے دوران جرمن زبان بھی سیکھی تھی۔ جرمنی کے بعض علم دوست اور ادب نواز لوگوں نے از راہِ قدردانی اقبالؔ کے نام سے ایک سوسائٹی قائم کی جس کا مقصد اقبالؔ کی تعلیمات اور کلام کی اشاعت تھا۔ جرمنی کے اولین اقبالؔ شناسوں میں ڈانسور وشو کا نام لیا جاتا ہے۔ انھوں نے ‘پیامِ مشرق’ کے مقدمے کو جرمن زبان میں لکھا اور ‘پیامِ مشرق’ کے مطالب کی وضاحت کی۔ پروفیسر ڈاکٹر فِشر نے جو ‘اسلامیکا’ نام کے جرمن رسالے کے اڈیٹر بھی تھے، جرمن زبان میں ‘پیامِ مشرق’ پر تبصرہ لکھا اور اقبالؔ کا موازنہ و مقابلہ مشہور جرمن شاعر گوئٹے سے کیا۔ جرمنی کے ایک اور مستشرق اور شاعر ڈاکٹر ہانسی نے بھی ‘پیامِ مشرق’ کے بعض اجزا کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا پھر اس کو نہایت خوشخط لکھ کر علامہ اقبالؔ کی خدمت میں ہدیتاً ارسال کیا۔ ہندوستانی شاعروں کی منتخب نظموں کا جرمن زبان میں ترجمہ کرکے ایک مجموعہ شائع ہوا جس میں اقبالؔ کی پانچ نظمیں شامل کی گئیں جبکہ ٹیگور کی صرف ایک نظم شامل کی گئی۔اقبالؔ پر مغربی جرمنی کی نامور اسکالر اور مستشرق پروفیسر اینے میری شمل نے سب سے زیادہ کام کیا ہے۔ وہ جرمن زبان کے علاوہ انگریزی، عربی، فارسی اور ترکی زبانیں بھی جانتی تھیں۔ انھوں نے اقبالؔ پر کئی طرح سے کام کیا۔ اقبالؔ کو مغربی دنیا سے روشناس کرانے میں تنہا ڈاکٹر اینے میری شمل نے جو کردار ادا کیا، وہ بڑے بڑے علمی اداروں کے کام پربھاری ہے۔ انھوں نے ‘جاوید نامہ’ کا ترکی زبان میں ترجمہ کیا۔ اسی طرح ‘جاوید نامہ’ کے کچھ اجزاء اور ‘مسجدِ قرطبہ کے منظوم تراجم جرمن زبان میں کیے۔ انھوں نے اقبالؔ پر متعدد گراں قدر مقالے لکھ کر شائع کرائے اور دنیا بھر میں گھوم گھوم کر اقبالؔ کی فکر اور شاعری پر لکچر دیے۔ “دی گیبریل وینگ انگریزی زبان میں اقبالؔ پر ان کی کتاب ہے جس میں اقبالؔ کے مذہبی افکار سے بحث کی گئی ہے۔اٹلی زبان میں پہلی بار 1952ء میں مشہور اطالوی دانشور پروفیسر الساندرو بوسانی (بوزانی) نے ‘جاوید نامہ’ کا ترجمہ شائع کیا تو اٹلی میں اقبالؔ شناسی کا آغاز ہوا۔ پروفیسر بوسانی نے متعدد مقالات لکھ کر فکرِ اقبالؔ کی وضاحت و صراحت کی۔ انھوں نے ‘پیامِ مشرق’، ‘بانگِ درا’، ‘زبورِ عجم’، ‘بالِ جبریل’، ‘ضربِ کلیم’ اور ‘ارمغانِ حجاز’ کی منتخب نظموں کا اطالوی زبان میں ترجمہ کیا۔ پروفیسر بوزانی نے تنہا اقبالؔ پر اتنا کام کیا ہے کہ اٹلی زبان میں اقبالؔ پر کافی مواد جمع ہوگیا ہے۔ پروفیسر جی توچی کا شمار بھی اٹلی کے ممتاز اقبالؔ شناسوں میں ہوتا ہے۔روس کا پہلا محقق جس نے اقبالؔ کی طرف توجہ کی، ماسکو کا اے.ای. کریمکی تھا جس نے اپنی کتاب ‘ایران: اس کی تاریخ اور ادب’ (1912ء) میں اقبالؔ کا ذکر کیا ہے اور اقبالؔ کے اس علمی مقالے کا حوالہ دیا ہے جس پر ان کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی تھی۔ 1917ء کے روسی انقلاب کے بعد وہاں کے حالات اس لائق نہ تھے کہ اقبالؔ یا ان کے جیسے کسی دوسرے شاعر و مفکر کی طرف توجہ کی جاتی۔ پھر اقبالؔ کی معروف نظموں کا ترجمہ تاجک زبان میں شائع ہوا۔ یہ انتخاب و ترجمہ تاجکستان کے مشہور شاعر میرشاکرؔ نے کیا تھا۔ 1964ءمیں ماسکو سے ‘بانگ درا’ کے نام سے اقبالؔ کی منتخب نظموں کا ترجمہ شائع ہوا۔ اس کتاب پر روس کی مشہور خاتون اسکالر ایل گورڈن پولونسکایا نے مفصل مقدمہ لکھا جس میں فکر اقبالؔ کے نمایاں پہلوؤں سے بحث کی گئی ہے جبکہ کتاب کے اختتامیہ کے طور پر ایک دوسری اسکالر نتالیا پری گارینا نے اقبالؔ کے اسلوب کا تجزیہ پیش کیا تھا۔ مؤخر الذکر مصنفہ نتالیا پری گارینا روس میں علامہ اقبالؔ پر اتھاریٹی تسلیم کی جاتی ہیں۔ انھوں نے 1972ء میں ‘محمد اقبال کی شاعری’ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی یہ کتاب چھپ کر اقبالؔ پر حوالے کی کتاب بن گئی ہے۔ ان کی ایک اور کتاب ‘مطالعہ اقبال’ کے نام سے طبع ہوئی۔ بعد کے زمانے میں ایک اور خاتون ایم.ٹی. استیپن یینتس (ایم ٹی اسٹیفن یانٹس ) نے بھی اقبالؔ پر قابلِ ذکر کام کیا ہے۔ ان کے علاوہ نکولائی انی کیف، غضنفر علی، عبداللہ غفوروف، نکولائی گلیدف، الیکسی سخوچیف وغیرہ نے بھی روسی زبان میں اقبالؔ کے فکر و فن پر گراں قدر مضامین قلم بند کیے ہیں۔فرانسیسی خاتون لوس کلاڈ میترے نے اپنی کتاب ‘فکرِ اقبال سے تعارف’ میں اقبالؔ کے افکار و خیالات سے بہت عمدہ بحث کی ہے۔ اسی طرح سری لنکا کے تیساوجئے رتنے (تیسا وجے رتنے) نے بھی اپنے مقالے میں اقبالؔ کی عالم گیر انسان دوستی کو اس کی شاعری کا اصل الاصول قرار دیا ہے۔ چکوسلوواکیہ کے یان مارک ہوں یا فلسطین کے محمد زیتون یا برطانیہ کے وِکٹر کرنین، اقبالؔ پر کام کرنے والے دانشوروں اور ادیبوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ اور آج بھی اقبالؔ کی شاعری اور فکر و فلسفے کا مطالعہ دنیا بھر کے اسکالرس اور ناقدین و محققینِ ادب کررہے ہیں۔ اس وقت دنیا کی تمام اہم زبانوں میں اقبالؔ پر کتابیں اور مضامین موجود ہیں۔ ایسی عالم گیر شہرت و مقبولیت شاید دنیا میں صرف چند شاعروں کو ہی ملی ہوگی۔علامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے۔ آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی. علامہ اقبال بہت بڑی بات انتہائی آسانی سے کہہ جاتے تھے.
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوقیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
سر بسجدہ ہوا کبھی توز میں سے آنے لگی صدا
ترادل تو ہے صنم آشناء تجھے کیا ملے گا نماز میں
اکیسویں صدی میں علامہ اقبال کی
فکر کو عام و خواص میں تشہیر کی ضرورت ہے۔اللہ تعالی علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمہ اللہ کی مغفرت فرمائے۔ اور ان کےقبر کو نور سے منور فرمائے۔ آمین یا رب العالمین