اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات پر پابندی کا مطالبہ،عرب اسلامی سربراہوں کا عالمی سطح پر اسرائیل کی شرکت کو منجمد کرنے کی ضرورت پر زور
ریاض،12نومبر: ریاض میں ہونے والی عرب اسلامی سربراہی کانفرنس کے حتمی بیان میں اسرائیل کو اپنی جارحانہ پالیسیوں کو روکنے کے لیے مجبور کرنے کے مطالبہ کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سرگرمیوں میں اسرائیل کی شرکت کو روکنے کے ساتھ ساتھ ریاست فلسطین کو تسلیم کرنے کے لیے بین الاقوامی حمایت کو متحرک کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ریاض اجلاس کے اعلامیے میں دنیا کے تمام ملکوں سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمد پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اسرائیلی کنیسٹ کی جانب سے ”انروا“ کے استثنیٰ کو واپس لینے کے فیصلے کی مذمت کی گئی۔ سربراہی اجلاس کے حتمی بیان میں شام کی سرزمین پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی گئی۔ اسی طرح لبنان میں جنگ کو روکنے کے لیے وزارتی کمیٹی کی کوششوں میں توسیع پر زور دیا گیا۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر عرب اور اسلامی دنیا ناراض ہے۔ عالمی برادری غزہ میں جنگ کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ اسرائیل فلسطین میں زمینی حقیقت کو بدلنا چاہتا ہے اور دو ریاستی حل کو تباہ کرنا چاہ رہا ہے۔ریاض سمٹ کے حتمی بیان میں بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ 19 جولائی 2024 کی بین الاقوامی عدالت انصاف کی مشاورتی رائے کے تمام مشمولات پر عمل درآمد کرے۔ عالمی عدالت کی اس رائے میں میں اسرائیلی قبضے کو جلد ازجلد ختم کرنے، جنگ کے اثرات کو دور کرنے اور نقصانات کا معاوضہ ادا کرنے کا کہا گیا تھا۔
جبری گمشدگی کی مذمت
غزہ کی پٹی اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ہزاروں فلسطینی شہریوں کے خلاف موجودہ جارحیت کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیلی قابض افواج کی جانب سے لوگوں کو جبری لاپتہ کیا جارہا ہے۔ اس جرم کی مذمت کی گئی۔ بچوں، خواتین اور بزرگوں اور دیگر افراد کے ساتھ بدسلوکی، جبر، تشدد اور ذلت آمیز سلوک برتا جارہا جس کی شدید مذمت کی گئی۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اغوا کاروں کے انجام سے پردہ اٹھانے کے لیے ہر سطح پر کام کریں۔ گمشدہ افراد کی رہائی کے لیے کام کریں، ان کے تحفظ کو یقینی بنائیں اور اغوا کاروں کو کٹہرے میں لانے کے لیے آزادانہ اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کریں۔
اسرائیلی جرائم کی مذمت
ریاض سربراہی اجلاس کے حتمی بیان میں غزہ کی پٹی میں قابض اسرائیلی فوج کی طرف سے اجتماعی قبروں سمیت نسل کشی کے جرم، تشدد اور کھیتوں میں پھانسی کے جرم جیسے خوفناک جرائم کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ جبری گمشدگی، لوٹ مار اور نسلی تطہیر جیسے جرائم پر سلامتی کونسل سے تحقیقات کے لیے ایک آزاد اور قابل اعتبار بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ ان جرائم کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
عرب اسلامی سربراہی کانفرنس کے اعلامیے میں لبنان کے خلاف طویل اور مسلسل اسرائیلی جارحیت اور لبنان کی خودمختاری اور تقدس کی پامالی کی شدید مذمت کی گئی۔ لبنان میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 2006کی قرار داد نمبر 1701 کی تمام دفعات کو نافذ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ حالیہ اسرائیلی جارحیت کے پیش نظر لبنان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔حتمی بیان میں لبنانی فوج اور اس کے مراکز کو دانستہ طور پر نشانہ بنانے کی مذمت کی گئی ہے۔ نیز عام شہریوں کے قتل، رہائشی علاقوں کی منظم تباہی اور جبری نقل مکانی کی بھی مذمت کی گئی۔ لبنان میں کام کرنے والی اقوام متحدہ کی عبوری فورس (یونیفل) کو نشانہ بنانے کو افسوس ناک قرار دیا گیا۔ عرب اسلامی سربراہوں نے لبنانی آئینی اداروں کو اپنے اختیار کو بروئے کار لانے اور اپنی پوری سرزمین پر لبنانی ریاست کی خودمختاری کو بڑھانے کا کہا گیا۔
عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے حتمی بیان میں لبنان میں اقوام متحدہ کی امن فوج پر اسرائیل کے دانستہ حملوں کی واضح مذمت کی گئی۔ اس حوالے سے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کو یقینی بنائے۔ لبنان میں اقوام متحدہ کی فوج کے بینر تلے کام کرنے والی امن فوج کی حفاظت کو یقینی بنانے کا اسرائیل کی ذمہ داری قرار دی گئی۔
فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی مذمت
حتمی بیان میں فلسطینی شہریوں کی ان کی سرزمین کے اندر یا باہر نقل مکانی کو بھی مسترد کردیا گیا کیونکہ یہ ایک جنگی جرم ہے اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل کی طرف سے جاری اجتماعی سزا اور محاصرے کے استعمال کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ غزہ کی پٹی میں شہریوں کے خلاف بھوک کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی مذمت کی گئی اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ جارحیت کی وجہ سے پیدا ہونے والی انسانی تباہی کے خاتمے کے لیے فوری طور پر عملی اقدامات کرے۔ اسرائیل کو غزہ کی پٹی سے مکمل طور پر دستبردار ہونے پر مجبور کیا جائے۔ غزہ کی تمام گزر گاہیں کھولی جائیں۔ غزہ کی پٹی میں محفوظ اور تیز رفتار طریقے سے انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنایا جائے۔
رفح سے اسرائیل کا انخلا
متعلقہ سیاق و سباق میں عرب اسلامی حکمرانوں نے رفح کراسنگ اور فلاڈیلفیا کوریڈور (صلاح الدین کوریڈور) سے اسرائیلی افواج کے فوری انخلا، رفح کراسنگ کا انتظام فلسطینی نیشنل اتھارٹی کو واپس دینے اور اس کراسنگ سے آمد و رفت شروع کرانے کا مطالبہ کیا۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت سے مطالبہ کیا گیا کہ فلسطینی عوام کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے اسرائیلیوں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جائیں۔
اسرائیل پر پابندیوں کا مطالبہ
حتمی بیان میں سلامتی کونسل اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ضروری فیصلے لیں۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کے غیر قانونی اقدامات کو روکنے کے لیے اس پر پابندیاں عائد کریں۔ یہ وہ غیر قانونی اقدامات ہیں جو دو ریاستی حل کو نقصان پہنچا رہے اور مسئلہ کے منصفانہ اور جامع حل کے حصول کے تمام امکانات کو ختم کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی استعماری پالیسیوں کو مجرمانہ قرار دیا جائے۔ اسرائیلی اتھارٹی کی طرف سے غیر قانونی آباد کاری کو توسیع دینے کے مقصد سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے کسی بھی حصے کو زبردستی الحاق کرنے کا عمل جاری ہے۔ اسرائیلیوں کی آباد کاری اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ سعودی وزیر خارجہ نے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے میں تیزی لانے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر عالمی برادری کے پاس اپنی خاموشی کا جواز پیش کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔
سعودی شہزادہ فیصل بن فرحان نے مزید کہا کہ عرب اسلامی موقف خطے میں کشیدگی کو پرسکون کرنے میں مدد کرتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ غزہ میں جنگ کا جاری رہنا پوری عالمی برادری کی ناکامی ہے۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے غیر معمولی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غزہ کو امداد کی آمد پر پابندیاں ہٹانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا سربراہی اجلاس کا مقصد خطے میں کشیدگی کو کم کرنا ہے۔ ریاست فلسطین کا قیام ہی مشرق وسطیٰ میں تنازعات کا حل ہے۔ سربراہی اجلاس میں جنگ بندی تک پہنچنے اور اس کے لیے مربوط اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔سعودی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ سربراہی اجلاس کا مقصد خطے میں کشیدگی کو کم کرنا ہے اور جنگ کو روکنا اور فلسطینیوں کے مصائب کو کم کرنا اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے خطے میں امن کو مستحکم کرنے والے مستقل حل کی ضرورت پر زور دیا۔