واشنگٹن،05نومبر۔ امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ شب مشی گن کے دوسرے سب سے بڑے شہر گرینڈ ریپڈ میں ریلی کے ساتھ انتخابی دن کا آغاز کیا۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گرینڈ ریپڈ، مشی گن میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم مشی گن سے جیت جاتے ہیں تو ہماری جیت یقینی ہو گی۔انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدارتی انتخابات جیتنے کا 95 فیصد امکان ہے، اگر انتخابات جیت گیا تو امریکا کو نئی بلندیوں پر لے جاوں گا۔ ٹرمپ نے انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ توانائی انڈسٹری پر توجہ مرکوز کر کے افراطِ زر ختم کروں گا۔ سابق امریکی صدر کا کہنا ہے کہ کامیابی ممکن ہے اگر ہم سب ووٹ دیں، رپبلکن پارٹی انتخابات جیتنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہے۔انہوں نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مشی گن میں آٹو موبائل مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی بحالی کا بھی وعدہ کیا۔
خواتین ووٹرز ہیرس کی حامی، مردوں کی بڑی تعداد ٹرمپ کیساتھ
امریکی صدارتی انتخابات سے قبل انتخابی مہم آخری روز بھی بھرپور جوش و خروش سے جاری رہی۔جہاں سروےرپورٹ سامنے آئی ہے کہ امریکی خواتین ووٹرز ہیرس کی حامی ہیں جبکہ مردوں کی بڑی تعداد ٹرمپ کے ساتھ ہے۔ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ، دونوں نے اپنی حتمی ریلیوں اور تقاریر کے ذریعے اہم سوئنگ ریاستوں میں ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی۔
سروے اور تجزیوں کے مطابق، دونوں امیدوار کے درمیان قومی سطح پر اور خاص کر پنسلوانیا، مشی گن، اور نارتھ کیرولائنا جیسی ریاستوں میں کانٹے کا مقابلے ہے، ان ریاستوں کے نتائج انتخابات کے حتمی نتیجے پر فیصلہ کن اثر ڈال سکتے ہیں۔کملا ہیرس نے اپنی انتخابی مہم کی آخری ریلی فلاڈیلفیا، پنسلوینیا میں منعقد کی، جس میں انہیں لیڈی گاگا، رکی مارٹن اور اوپرا ونفری جیسی مشہور شخصیات کی حمایت حاصل رہی۔دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کی آخری ریلی گرینڈ ریپڈز مشی گن میں نکالی، جہاں انہوں نے اپنے بنیاد پرست ووٹرز کو امریکا کو دوبارہ مضبوط بنانے کا عزم دلایا۔دونوں امیدوار ان ریاستوں کے ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ٹرمپ نے اپنی حالیہ تقاریر میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے اور اسے ’امریکا کے لیے خطرہ‘ قرار دیا۔انہوں نے یوایف سی فائٹرز کو سرحدوں پر تعینات کرنے کی تجویز بھی دی، جس پر انسانی حقوق کے کارکنوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کی اس قسم کی بیان بازی ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے کی حکمتِ عملی ہو سکتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اس انتخاب میں ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے، ہیرس کا منصوبہ ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے انفلیشن ریڈکشن ایکٹ پر عمل درآمد جاری رکھیں گی اور ماحول دوست پالیسیوں کو فروغ دیں گی۔ٹرمپ اس کے برعکس توانائی کی خود مختاری کے لیے فریکنگ کو بحال کرنا چاہتے ہیں اور پیرس معاہدے سے دوبارہ علیحدگی اختیار کرنے کے خواہاں ہیں، یہ موقف انہیں قدامت پسند ووٹرز کی حمایت میں مدد دے سکتا ہے۔دونوں امیدواروں کے مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے موقف نے مسلم ووٹرز پر اثر ڈالا ہے۔
ہیرس کا فلسطین اسرائیل تنازع پر معتدل موقف اور اسقاطِ حمل کی حمایت کچھ مسلم ووٹرز کو ان سے دور کر رہا ہے، جبکہ ٹرمپ کا قدامت پسند اور اسرائیل کے حق میں مضبوط موقف ان کے مخصوص ووٹرز میں مقبولیت بڑھا رہا ہے۔ٹرمپ کے جنگ نہ کرنے کے وعدے کو بھی مسلم ووٹرز مثبت نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
خواتین کے حقوق اور اسقاطِ حمل کے معاملات اس انتخاب میں انتہائی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ہیرس نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اسقاطِ حمل کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی حمایت کریں گی۔اس کے برعکس ٹرمپ نے اسقاطِ حمل کے خلاف سخت موقف اپنایا ہے۔سروے کے مطابق خواتین ووٹرز میں ہیرس کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ مرد ووٹرز کی بڑی تعداد ٹرمپ کے ساتھ کھڑی ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق سوئنگ ریاستوں کے نتائج اس انتخاب کے حتمی نتیجے پر اہم اثر ڈال سکتے ہیں۔اگر کملا ہیرس خواتین اور موسمیاتی تبدیلی کے حامی ووٹرز کو بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے پر آمادہ کر سکیں تو ان کے جیتنے کے امکانات روشن ہوں گے۔دوسری جانب اگر ٹرمپ اپنے بنیاد پرست ووٹرز کو ووٹ ڈالنے پر متحرک کرنے میں کامیاب رہے تو وہ قریبی مقابلے میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔یہ انتخابات امریکا کے معاشرتی ڈھانچے اور سیاسی ماحول میں تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔خواتین کے حقوق، موسمیاتی تبدیلی اور امیگریشن جیسے مسائل اس الیکشن میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور آئندہ امریکی سیاست اور قانون سازی پر ان مسائل کے گہرے اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔
previous post