سرکاری امداد یافتہ مدارس کو آسام کی طرز پر ’مڈل انگلش اسکولز‘میں تبدیل کردیا جائے گا؟
الہ آباد/لکھنؤ,22مارچ (عظمت اللہ خان/ایچ ڈی نیوز بیورو)۔
یوپی مدرسہ بورڈ ایکٹ: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سیکولرازم کے خلاف ہے۔عدالت عالیہ نے کہا کہ یہ قانون سیکولرازم کے اصول کے خلاف ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے یوپی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ مدارس میں زیر تعلیم طلباء کو بنیادی تعلیمی نظام میں جگہ دے۔
واضح رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ ڈبل بنچ کے فیصلے کے بعد اب تمام سبسڈی والے مدارس کو ملنے والی گرانٹ یعنی حکومت سے ملنے والی امداد بند ہو جائے گی اور سبسڈی والے مدارس ختم ہو جائیں گے۔ تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ حکومت کی مالی امداد سے چلنے والے مدارس کے ذریعے مذہبی تعلیم دی جا رہی تھی۔ عدالت نے اسے سیکولرازم کے بنیادی اصولوں کے منافی سمجھا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یوپی حکومت نے مدارس کی جانچ کے لیے گزشتہ اکتوبر 2023 میں ایس آئی ٹی تشکیل دی تھی۔ ایس آئی ٹی مدارس کو دی جانے والی غیر ملکی فنڈنگ کی تحقیقات کر رہی ہے۔ پٹیشنر انشومان سنگھ راٹھوڑ اور دیگر نے عرضی داخل کرکے ایکٹ کو چیلنج کیا تھا۔ ایمیکس کیوری اکبر احمد اور دیگر وکلاء نے عدالت میں اپنا کیس پیش کیا۔ سماعت کے بعد جسٹس وویک چودھری اور جسٹس سبھاش ودیارتھی کی ڈویژن بنچ نے یہ حکم دیا۔ انشومان سنگھ راٹھور اور دیگر نے مدرسہ بورڈ کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں حکومت ہند، ریاستی حکومت اور محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے مدارس کے انتظام پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔
یوپی بورڈ مدرسہ ایکٹ 2004 کیا ہے؟
یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 ایک قانون تھا جسے حکومت اتر پردیش نے ریاست میں مدارس کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے منظور کیا تھا۔ اس قانون کے تحت مدارس کو بورڈ سے شناخت حاصل کرنے کے لیے بہتر معیارات پر پورا اتررہے تھے۔ بورڈ نے مدارس کو نصاب، تدریسی مواد اور اساتذہ کی تربیت کے لیے رہنما اصول بھی فراہم کیے ہیں،جس پریہ سرکاری مالی امداد پر چلنے والے یہ مدارس کھرا اتر رہے تھے۔ فیصلے پر یوپی مدرسہ بورڈ کی رجسٹرار پرینکا اوستھی نے کہا کہ ابھی مکمل حکم کا انتظار ہے۔ حکم کے بعد ہی صورتحال واضح ہوگی اوراس کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔
یہ بھی واضح رہے کہ یو پی میں560ریاستی امداد یافتہ مدراس ہیں اور 121 منی آئی ٹی آئی چل رہے ہیں ۔امداد یافتہ دینی مدارس میں اس وقت 9514 ؍ اساتذہ اپنے تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ امداد یافتہ دینی مدارس کے علاوہ یو پی مدرسہ بورڈ سے تسلیم شدہ دینی مدارس کی کل تعداد 19213 ہے ۔تسلیم شدہ دینی مدارس ریاست کے دور دراز کے علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں جہاں غریب بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ اپنے قیام کے وقت سے ہی عربی فارسی بورڈ محکمہ تعلیم کے ماتحت کام کرتا رہا ہے ۔ لیکن 1994 میں عربی فارسی بورڈ کو محکمہ تعلیم سے الگ کرکے اس کو محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے ماتحت کر دیا گیاتھا ۔ اس طرح ایک صدی پرانے عربی فارسی بورڈ کی اہمیت خود بہ خود ختم ہو گئی ۔ 14؍ دسمبر2007 کو ریاستی حکومت نے عربی فارسی بورڈ کا نام بدل کر یو پی مدرسہ تعلیمی بورڈ کر دیا اور اس کا صدر مقام الہ آباد سے لکھنؤ منتقل کر دیا گیا۔سرکاری امداد حاصل کرنے کے لئے مدارس کو یوپی مدرسہ بورڈ سے منظوری حاصل کرنی ہوتی تھی۔
دراصل یہ خدشہ پہلے ہی تھا کہ کیا یوپی میں حکومت سے امداد یافتہ دینی مدارس ختم کر دئیے جائیں گے؟ یہ سوال اہل مدارس اور میڈیا سے جڑے افراد کے درمیان گردش کر رہے تھے۔یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کیونکہ آسام میں امداد یافتہ دینی مدارس کو جس طرح سے ختم کیا گیا، اس کے بعد یو پی کے دینی مدارس کے وجود کو لیکر لوگوں کے شکوک و شبہات میں اضافہ پہلے ہی ہو چکا تھا۔جو اب آشکار ہو چکا ہے۔
دینی مدارس کے ذمہ داران کا خیال تھا کہ اگر آسام کا فارمولہ یو پی میں بھی آزمایا گیا تو یو پی مدرسہ بورڈ کا بھی خاتمہ ہو جائے گا بس فرق یہ ہے کہ آسام میں وہاں کی حکومت نے ایسا کیا تھا اور یہاں کورٹ کا سہارا لے کر بورڈ کو ختم کیا جا رہا ہے۔
کیا یوپی میں بھی آسام کا فارمولہ اختیار کرے گی سرکار؟
آسام میں کیا ہوا؟
آسام میں 1281 مدارس ’مڈل انگلش اسکولز‘ میں تبدیل کر دیئے گئے!
حکومت کہتی ہے کہ سرکاری پیسے سے مذہبی تعلیم نہیں دی جا سکتی‘
بی بی سی کے مطابق آسام حکومت کی کابینہ نے 13نومبر 2020کو ایک میٹنگ کی اور صوبائی سطح پر اس کی منظوری دی گئی۔ مدارس کو باقاعدہ ہائی سکولوں میں تبدیل کرنے اور ان مدارس میں دینی مضامین کی تعلیم واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا کابینہ کے اس فیصلے کے دوران وزیرِ اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما ریاست کے وزیر تعلیم تھے۔اس کے بعد سنہ 2021 میں مدارس کی تعلیم سے متعلق دو ایکٹ کو ختم کرنے کے لیے ایک قانون بنا کر تمام سرکاری اور صوبائی مدارس کو بند کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔اب آگے دیکھنا ہے کہ ہوی سرکار کیا قدم اٹھاتی ہے یا ان مدارس کو ہاءی اسکول میں تبدیل کرتی ہے۔