AIMPLB meet Karnataka CM
بنگلور, 31؍ اگست : آج آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے کرناٹک کے وزیر اعلی جناب سدا رمیا سے ملاقات کی اور وقف ترمیمی بل پر ایک یادداشت پیش کی۔ وفد کی قیادت بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی صاحب نے کی۔ وفد میں کرناٹک کے بعض ارکان بورڈ نیز مسلمانوں کی مقتدر دینی و ملی جماعتوں کے ریاستی سربراہ اور شہر بنگلور کی نمایاں شخصیات شامل تھیں، جن میں بطور خاص آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ارکان میں جناب کے رحمن خان، سابق مرکزی وزیر، مولانا سید تنویر احمد ہاشمی صدر جماعت اہل سنت کرناٹک، جناب الحاج عاصم افروز سیٹھ صاحب اس کے علاوہ مولانا شبیر احمد حسینی ندوی صدر مدرسہ اصلاح البنات بنگلور، مفتی شمس الدین تجلی صاحب قاسمی سکریٹری جمعیت علما کرناٹک،جناب حافظ فاروق احمد صاحب جمعیت علما کرناٹک،جناب حافظ سید عاصم عبداللہ سکریٹری جمعیت علما کرناٹک ، ڈاکٹر سعد بلگامی صاحب امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند، مولانا وحیدالدین خان صاحب سکریٹری جماعت اسلامی کرناٹک، ، مولانا مقصود عمران صاحب رشادی امام و خطیب جامع مسجد بنگلور، مفتی محمداسلم صاحب رشادی قاسمی رکن شوریٰ مرکز سلطان شاہ، مفتی محمد علی قاضی صاحب جنرل سکریٹری جماعت اہل سنت و چیرمین کرناٹکا اردو اکیڈمی، مفتی عمر فاروق صاحب فیڈریشن آف مساجد بنگلور ویسٹ، جناب عثمان شریف صاحب،مولوی عروا عبداللہ صاحب شامل تھے۔
AIMPLB meet Karnataka CM
وفد نے وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ یہ ترمیمی بل خالصتاً مرکزی حکومت کی بد نیتی پر مبنی ہے، جس کا مقصد وقف ایکٹ 1995کو کمزور کرنا ہے، جسے کانگریس کی سرکار نے شری منموہن سنگھ جی کی قیادت میں 2013 میں خاصا مضبوط کیا تھا۔ یہ ترمیمی بل وقف املاک پر سرکاری و غیر سرکاری قبضوں کے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔ اس میں نہ صرف ریاستی وقف بور ڈوں و سینٹرل وقف کونسل کے اختیارات کو خاصا کمزور و مضمحل کیا گیا ہے بلکہ ایک طرح سے پورا اختیار کلکٹر و سرکاری انتظامیہ کے حوالہ کردیا گیا ہے۔ اس لئے ہماری گزارش ہے کہ کانگریس پارٹی اور پارلیمنٹ میں موجود آپ کے ممبران اس بل کی بھرپور مخالفت کریں اور اسے ہرگز ہرگز بھی منظور نہ ہونے دیں۔ جنرل سکریٹری بورڈ نے ایک تحریری یاداشت بھی وزیر اعلی کو سونپی جس میں اس بل کی ایک ایک شق کا جائزہ لیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے وفد کی باتوں کو بہت غور اور سنجیدگی سے سنا اور وعدہ کیا کہ ان کی اور کانگریس پارٹی کی پوری کوشش ہوگی کہ یہ بل منظور نہ ہونے پائے۔