9.1 C
Delhi
December 13, 2024
Hamari Duniya
دہلی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف اور آئین کی جیت

Feroze Ahmad Advocate

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے کہا کہ اقلیتوں کو ناروا قانونی لڑائی میں گھسیٹ کر ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے

نئی دہلی: ملک کی مؤقر مسلم تنظیموں کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے اس تاریخی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اقلیتی کردار کو برقرار رکھتے ہوئے 1967 کے سید عزیز باشا مقدمہ کے فیصلے کو کالعدم کر دیا گیا۔ مشاورت کے صدر اور معروف قانون دان فیروز احمد ایڈوکیٹ نے کہا ہے کہ یہ آئین و انصاف کی جیت ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ اب اقلیتوں کو ناروا قانونی لڑائی میں گھسیٹ کر ملک و قوم کی بہترین صلاحیتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرقہ پرست عناصر ابے اپنے گریبانوں میں منھ ڈالیں۔

سپریم کورٹ کی سات رکنی آئینی بینچ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کر رہے تھے، عدالت کی اکثریتی رائے سے فیصلہ دیا کہ پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے قائم اداروں کا اقلیتی کردار ختم نہیں کیا جا سکتا، عدالت نے عزیز باشا کیس میں سپریم کورٹ کے سابقہ موقف اور استدلال دونوں کو غلط قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ اس پر ایک نئی بنچ ہدایات تیار کرے گی۔ اب چونکہ سپریم کے اس فیصلے کی روشنی میں اب سپریم کورٹ کی نئی بنچ مسلم یونیورسٹی کے مقدمے کا فیصلہ کرے گی،مشاورت نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس مسئلہ کو جلد از جلد ہمیشہ کے لیے ختم کرے، قانون کی اس ناروا کشمکش کا سلسلہ کا سلسلہ بند ہونا چاہیے جس میں دہائیوں سے ہماری بیش قیمت توانائیاں ضیا ع ہورہی ہیں۔ صدر مشاورت فیروزاحمد ایڈو کیٹ نے مزید یہ بھی کہا ہے کہ ملک میں صرف مذہبی اقلیتی ادارے ہی نہیں ہیں، لسانی اقلیتی اداروں کی بھی کثیر تعداد ہے اور ہندوؤں کے اقلیتی ادارے بھی ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن مسلمانوں کی نفرت و عداوت میں گرفتار عناصر کی آنکھوں پر پٹیاں پڑی ہوئی ہیں۔

صدرمشاورت فیروز احمد ایڈوکیٹ نے میڈیا کے لیے جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بلکہ ملک بھر کے دیگر اقلیتی اداروں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے سے اقلیتوں کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کے حق اور ان کے اقلیتی کردار کے تحفظ کو مضبوط بنیاد فراہم کی ہے، جو ملک کے آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق میں شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ چونکہ ابھی حتمی فیصلہ آنا باقی ہے اس لئے سپریم کورٹ میں پوری قوت اور حکمت عملی کے ساتھ اس لڑائی کو انجام تک پہونچانے کی ضرورت ہے۔

Related posts

بے روزگاروں کیلئے شاندار خوشخبری، جامعہ ہمدرد میں لگے گا میگا جاب میلہ

Hamari Duniya

مبینہ شراب گھوٹالہ:دہلی- پنجاب اور حیدرآبادمیں ای ڈی کی چھاپہ ماری،کیجریوال نے کہا اب تک نہ کچھ ملا ہے اور نہ ملے گا

Hamari Duniya

گنگٹوک میں بی 20 میٹنگ کا انعقاد، سکم کی آرگینک فارمنگ سے آگاہ ہوئی دنیا 

Hamari Duniya