بنارس کے محمد پور میں مسلکی تعصب کا یہ واقعہ لوگوں کے درمیان موضوع بحث،موجودہ حالات میں اس متعصبانہ رویہ پر لوگوں کا اظہار افسوس
وارانسی ،21جنوری :(ایچ ڈی نیوز)۔
ملک اور قوم کے موجودہ حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم ذات پات اور مسلکی تفریق کو پس پشت ڈال کر اتحاد و یگانگت اور بھائی چارہ کے ساتھ رہیں مگر شاید مسلمان ہوش کے ناخون لینے کو تیار نہیں ہیں اور بدستور مسلکی شدت پسندی ،تفریق و امتیاز کے رویہ پر قائم ہیں۔مسلکی تعصب کا ایک تازہ معاملہ بنارس کے ایک گاو¿ںمیں سامنے آیا ہے جہاں گزشتہ دنوںایک باپ کے جنازے میں شرکت کی وجہ سے تین بیٹوں کے نکاح کی تجدید کرائی گئی ۔ معلوم ہو کہ متوفی والد وہابی(مسلک اہل حدیث) پر عمل پیرا تھے جبکہ بیٹوں کا تعلق سنی(بریلوی ) مکتب فکر سے تھا۔
تفصیلات کے مطابق بنارس سٹی سے تقریباً پندرہ کلو میٹر دور بھدوہی روڈ پر واقع جنسا تھانہ کے تحت گاؤں محمد پور میں یہ واقعہ پیش آیا ہے۔جہاں سنی (بریلوی)مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے جبکہ محض چندخاندان وہابی(مسلک اہل حدیث ) سے وابستہ ہیں۔متوفی کا نام محب اللہ تھا ۔کچھ برسوں قبل ان کے ساتھ کچھ ایسا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے انہیں سنی مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیا گیاتو وہ اہل حدیث مسجد میں نماز پڑھنے لگے اور گاو¿ں میں وہابی معروف ہو گئے۔ بیٹوں سمیت ان کے خاندان کے دیگر افراد سنی ہی رہے ۔گزشتہ دنوں محب اللہ کا انتقال ہو گیا۔خاندان اور دیگر رشتہ داروں نے ان کی نماز جنازہ پڑھنے اور پڑھانے سے انکار کر دیااورگاو¿ں ہی میں ر ہنے والے وہابی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کو اطلاع دی گئی کہ ان کی نماز جنازہ ادا کریں۔چنانچہ انہوں نے باقاعدہ متوفی کی نماز جنازہ ادا کی اور تدفین کی رسومات میں بھی حصہ لیا۔نماز جنازہ کے دوران گاو¿ں کے دیگر افراد تو شامل نہیں ہوئے مگر متوفی محب اللہ کے بیٹے محمد اسلم ،سکندر اور جعفرباپ کی نماز جنازہ میں شریک ہو گئے۔جب اس کی اطلاع گاو¿ں کے با اثر سنی افراد کو ہوئی تو انہوں نے ان کے تینوں بیٹوں کوپھر سے نکاح پڑھنے کے لئے کہا ۔چنانچہ محلے کے با اثر حافظ محمد موسیٰ انصاری اور مولانا لئیق احمد انصاری نے ان کا دوبارہ نکاح پڑھایا۔مذکورہ واقعہ قرب و جوار کے دیگر گاو¿ں میں لوگوں کے درمیان موضوع بحث بنا ہوا ہے۔لوگ اس مسلکی متعصبانہ رویہ پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔