17.1 C
Delhi
January 18, 2025
Hamari Duniya
مضامین

آہ ! علامہ گورکھپوری

Allama Qamruddin

ابو احمد مہراج گنج
حضرت علامہ قمر الدین صاحب گورکھپوری نور اللہ مرقدہ وبرد اللّٰہ مضجعہ کے دیدار کا شرف غالباً جنوری 2000ء میں حاصل ہوا۔جب طلبہ گورکھپور ومہراج گنج کی انجمن” بزم ادب” کے موجودہ صدر کی معیت میں اس سال نئے داخلہ پانے والے بچوں کے ساتھ ساتھ میں بھی حضرت علامہ صاحب کی قیام گاہ پر حاضر ہوا تھا۔روشن نورانی چہرہ ،سادگی وانکساری کے پیکر حضرت علامہ صاحب نے ہر بچے سے فردا فردا اس کا تعارف لیا اور نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ زیادہ بازار میں مت گھومنا محنت سے پڑھائی کرنا،اپنے علاقے کے بچے محنت نہیں کرتے ہیں ۔اس وقت حضرت کی بات پوری طور سے نہیں سمجھ سکا تھا۔لیکن جب تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا تو پتا چلا کہ ضلع مہراج گنج اور گورکھپور کے زیادہ تر بچے اتنا ہی پڑھتے ہیں جس سے ان کو دارالعلوم سے ملنے والی امدادی سہولتیں ملتی رہیں اس زمانے میں امداد ملنے کے لئے 50میں سے 37٪فیصد درکار ہوتی تھی ۔
خیر میں بہت نیچے کی جماعت میں تھا ۔اور حضرت علامہ صاحب اس وقت دورہ حدیث شریف ، تکمیل علوم اور تکمیل تفسیر کے درجات میں تعلیم دیتے تھے ۔مجھے صرف ایک سال یعنی دورہ حدیث شریف میں صحیح مسلم جلد ثانی پڑھنے کا موقع نصیب ہوا۔
حضرت دورہ حدیث شریف میں جب کبھی حاضری لیتے تھے تو اکثر وبیشتر وہی رجسٹر اٹھاتے جس میں گورکھپور مہراج گنج دیوریاکے بچوں کا نام ہوتا۔
حضرتِ علامہ صاحب انجمن بزم ادب کے افتتاحی اور سالانہ پروگرام میں اپنی حاضری سے طلبہ کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے ۔ایک بار اس ناکارہ کو بھی انجمن بزم کا صدر بنادیا گیا اور حضرت والا پروگرام میں تشریف فرما تھے ۔طالب علمی کازمانہ اوپر سے میرا ناکارہ پن کہ میں نے حضرت کو نصیحت آمیز کلمات پیش کرنے کے لیے مدعو کرتے ہوئے ایک شعر پڑھا
تر دامنی پہ شیخ ہمارے نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
اور اس شعر کو شاید غالب یا میر تقی میر کی طرف منسوب کردیا ۔
حضرت نے خطبہء مسنونہ پڑھنے کے بعد مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ بیٹا جو شعر تم نے پڑھا ہے وہ میر تقی میر کا نہیں خواجہ میر درد کا ہے ۔اس کے بعد اپنے ناصحانہ کلمات سے نوازا۔
حضرت علامہ صاحب نور اللہ مرقدہ کی ذاتِ مبارکہ سے علاقے کے بچوں میں ایک ” میں “والی فیلنگ ہوتی تھی کیونکہ حضرت کا سایہ عاطفت بہت بڑی چیز تھی ،حضرت کے قیام گاہ پر تعلیمی اوقات کے علاوہ ہمیشہ طلبہ موجود ہوتے اور حضرت علامہ صاحب کے ارشادات و ملفوظات سے اپنی زندگی کو مثالی اور کار آمد بنانے کے راز سیکھتے رہتے تھے ۔
اب حضرت والا بھی داغ مفارقت دے گئے تو داغ دہلوی کے ایک مصرعہ
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھی مرنے والے میں
پیش کرکے آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔
اللہ پاک حضرت علامہ صاحب کے درجات بلند فرمائے آمین ۔

Related posts

پردھان منتری کسان سمردھی کیندر: (پی ایم کے ایس کے) ہندوستانی زراعت کو بااختیار بنانے کی مثبت پہل

Hamari Duniya

آل نیپال مسابقہ قرآن مجید مملکت سعودی عرب کا ایک تحسین عمل

Hamari Duniya

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر – خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا

Hamari Duniya