اسلام آباد، 15 مارچ (ایچ ڈی نیوز)۔
پاکستان کے سابق وزیراعطم عمران خان کی لاہور کے زمان پارک میں گرفتاری کی کوششیں آج صبح سے ایک بار پھر جاری ہیں۔گرفتاری کے دوران جاری آپریشن کے دوران عمران خان کارکنان سے ملنے باہر آ گئے۔اس موقع پر چہرے پر ماسک لگائے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کارکنان سے گفتگو بھی کی۔لاہور کے زمان پارک کے قریب ٹرانسفارمر زور دار دھماکے سے پھٹ گیا، ٹرانسفارمر مبینہ طور پر پیٹرول بم پھینکے جانے سے پھٹا ہے۔زمان پارک کے باہر پیٹرول بم پھینکے جانے سے گاڑی میں بھی آگ لگ گئی۔ادھر زمان پارک کے باہر سے پی ٹی آئی کے 10 کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد پولیس ان گرفتار کارکنوں کو قیدی وین میں ڈال کر لے گئی۔
اصل میں اس ہنگامہ کی وجہ پاکستان کی سیاست میںسرخیوں میں رہنے والا ’توشہ خانہ‘ معاملہ ہے۔پاکستان میں توشہ خانہ معاملہ اس قدر مشہور ہو جائے گا اور ایسی صورتحال پیدا کر دے گا، یہ کسی نے سوچا تک نہیں تھا۔ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ایک الگ کہانی ہے۔ لیکن یہ توشہ خانہ کیس ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت بھی چھین چکا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے باقاعدہ سماعت کی۔ عمران اپنے دلائل سے کمیشن کو مطمئن نہ کر سکے۔ اب عمران خان کے سر پر گرفتاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔
دراصل توشہ خانہ کابینہ کا ایک محکمہ ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ دوسرے ممالک کی حکومتوں، سربراہان مملکت اور غیر ملکی مہمانوں سے ملنے والے انمول تحفے اپنے پاس رکھنا لازمی ہے۔ عمران خان 2018 میں پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ انہیں اپنے سفر کے دوران عرب اور یورپی ممالک کے حکمرانوں سے مہنگے تحائف ملے۔ قواعد کے مطابق عمران نے انہیں توشہ خانہ میں جمع کرایا لیکن بعد میں عمران نے انہیں توشہ خانہ سے سستے داموں خرید کر مہنگے داموں میں فروخت کر دیا۔ ان کی حکومت نے اس سارے عمل کو قانونی اجازت دے دی تھی۔
سابق وزیراعظم نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ یہ تحائف سرکاری خزانے سے 2.15 کروڑ روپے میں خریدے گئے اور انہیں فروخت کر نے سے تقریباً 5.8 کروڑ روپے کا منافع ہوا۔ تحائف میں ایک گراف گھڑی، کف لنکس کا ایک جوڑا، ایک مہنگا قلم، ایک انگوٹھی اور چار رولیکس گھڑیاں سمیت دیگر تحائف شامل تھے۔ عمران خان کو وزیر اعظم کے طور پر اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں مختلف عالمی رہنماوں سے 14 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے 58 تحائف ملے تھے۔ ان پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے ان تحائف کی فروخت کی تفصیلات انکم ٹیکس ریٹرن میں پیش نہیں کیں، اس کیس کی سماعت کے باعث انہوں نے جج پر ایک منفی تبصرہ کیا، وہ بھی ان کی گرفتاری کی بن رہاہے۔
