جب کانگریس کی قیادت والی یو پی اے اقتدار میں تھی۔ 1980 میں لوک سبھا میں سب سے زیادہ مسلم ممبران پارلیمنٹ کی تعداد 49 تھی۔ 1984 میں جب راجیو گاندھی اپنی والدہ اور اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد اقتدار میں آئے تو لوک سبھا میں 42 مسلم ممبران پارلیمنٹ تھے۔
نئ دہلی:5جون (ہماری دنیا ڈیسک/عظمت اللّٰہ خان)اٹھارویں لوک سبھا 2024 میں فاتح مسلم ممبران پارلیمنٹ کی تعداد گزشتہ سترہویں لوک سبھا سے27 سے گھٹ کر 26 رہ گئی ہے، جب کہ نو مسلم بڑے چہرے دوسرے نمبر پر رہے ہیں ۔جن میں محمد سلیم،کنور دانش علی،حافظ رشید احمد چودھری،شاہنواز،حمد علی اشرف فاطمی،حنا شہاب،امتیاز جلیل ،اے ایم عارف کے نام قابل ذکر ہیں ۔، البتہ کانگریس کے گزشتہ سترہویں لوک سبھا میں7 مسلم فتح یاب امیدوار تھے، جن کی تعداد بڑھ کر دونگی ہوگئی ہے۔2024 پارلیمانی انتخابات میں فتحیاب ہونے والے امیدوار میں اقرا ءحسن چودھری کیرانہ یوپی،عمران مسعود سہارنپور، مولانا محبوب اللہ ندوی رامپور افضال انصاری غازی پور ،کنور دانش علی امروہہ، ضیاء الرحمن برق سنبھل،خلیل الرحمٰن جنگی پور مغربی بنگال، یوسف پٹھان بہرام پور، ابوطاہر خان مرشد آباد،ایس کے نور الاسلام بسیر ہاٹ،ساجدہ احمد،کلو بیریا، ایشا خان چودھری مالدہ جنوب،اسدالدین اویسی حیدرآباد تلنگانہ، آغا سید روح اللہ مہدی سرینگر ،میر الصافی احمد اننت ناک، عبد الرشید شیخ کشمیر ،ڈاکٹر محمد جاوید کشن گنج، طارق انور کٹیہار، رقیب الحسین دھوبری آسام،رشید احمد چودھری کریم گنج،شفیع پرمبل ویڈا کارا کیرالا، ای ٹی محمد بشیر ملا پورم،ڈاکٹر عبد الصمد صمدانی پننانی،محمد حنیف،ل لداخ، حمیداللہ سعید لکش دیپ،نوا سکانی رمنتھ پورم تمل ناڈو،فتحیاب مسلم ممبران کی کل تعداد 26 ہے۔واضح رہے کہ لوک سبھا 2024میں26 مسلم نمائندوں نے ایوان کی رکنیت حاصل کرلی ہے جو گزشتہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات سے کم ہے۔واضح رہے کہ سترہویں لوک سبھا2019 میں مسلم ممبران پارلیمنٹ کی تعداد ایک دہائی بعد کی بلند ترین تعداد 27 ہو گئی تھی، جو کہ پچھلی بار 23 تھی، ان میں سے ایک درجن نے اتر پردیش سے اور مغربی بنگال سے کامیابی حاصل کی۔ سترہویں لوک سبھا میں زبردست جیت درج کرتے ہوئے، بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے نے عام انتخابات میں زبردست اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی اور اکیلے پارٹی نے 303 نشستیں حاصل کی تھی۔ نیشنل کانفرنس کے رہنما فاروق عبداللہ، اے آئی ایم آئی ایم کے واضح سربراہ اسد الدین اویسی اور سماج وادی پارٹی کے اعظم خان ان ہائی پروفائل مسلم امیدواروں میں شامل ہیں جنہوں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اتر پردیش اور مغربی بنگال، جن میں کافی مسلم آبادی ہے، ہر ایک کمیونٹی سے لوک سبھا کے لیے چھ امیدوار تھے۔ کیرالہ اور جموں و کشمیر میں تین تین مسلم ممبران پارلیمنٹ تھے، جبکہ آسام اور بہار میں دو دو تھے۔ پنجاب، مہاراشٹر، تمل ناڈو، لکشدیپ اور تلنگانہ سے کمیونٹی کا ایک ایک ایم پی تھا۔ سیاسی جماعتوں میں ترنمول کانگریس کے پانچ مسلم ایم پی تھے، اس کے بعد کانگریس کے چارتھے۔ سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی)، نیشنل کانفرنس اور انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) سے تین تین مسلم ایم پی تھے۔ اے آئی ایم آئی ایم نے پارٹی کے سربراہ اویسی سمیت دو مسلم ممبران پارلیمنٹ کو بھیجا تھا، جبکہ رام ولاس پاسوان کی قیادت والی ایل جے پی، شرد پوار کی این سی پی، سی پی آئی (ایم) اور بدرالدین اجمل کی پارٹی اے آئی یو ڈی ایف سے ایک ایک مسلم ایم پی تھا، جب کہ 16ویں لوک سبھامیں 23 مسلم ممبران پارلیمنٹ تھے، جن میں سب سے زیادہ کانگریس اور ترنمول کانگریس سے تھے۔ گزشتہ 14ویں اور 15ویں لوک سبھا میں بالترتیب 30 اور 34 مسلم ممبران پارلیمنٹ تھے، جب کہ کانگریس کی قیادت والی یو پی اے اقتدار میں تھی۔ 1980 میں لوک سبھا میں سب سے زیادہ مسلم ممبران پارلیمنٹ کی تعداد 49 تھی۔ 1984 میں جب راجیو گاندھی اپنی والدہ اور اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد اقتدار میں آئے تو لوک سبھا میں 42 مسلم ممبران پارلیمنٹ تھے۔ مسلم ارکان پارلیمنٹ کی تعداد 1952 میں صرف 11 تھی۔