March 25, 2025
Hamari Duniya
Breaking News

مولانا عبد العلیم فاروقی کاوصال ملتِ اسلامیہ کے لئے ناقابلِ تلافی خسارہ

دارالعلوم دیوبند،مظاہر علوم سہارنپور ،اشاعت اسلام کیرانہ میں تعزیتی مجالس کا انعقاد:

لکھنؤ/دیوبند:24اپریل(عظمت اللّٰہ خان/ایچ ڈی نیوز) سنیت کے علم بردار اوردیوبندی بزرگ عالم دین مولانا عبدالعلیم فاروقی مختصر علالت کے بعد، نماز فجر سے قبل آج لکھنؤ میں اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی جانب کوچ کرگئے، مولانا کے انتقال کی خبر ملک اور بیرون ملک جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی اور چہار جانب سراسیمگی چھاگئی ۔اشاعت الاسلام کیرانہ میں ایک تعزیتی میٹنگ میں مولانا مرحوم کو ایصال ثواب کیا گیا۔مولانا برکت اللّٰہ امینی نے گہرے رنج کا اظہار کرتے ہوئے مولانا عبدالعلیم فاروقی صاحب کے وصال کو ملتِ اسلامیہ کے لئے ناقابلِ تلافی خسارہ بتایا۔مولانا برکت اللّٰہ امینی نے مرحوم کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ مولانا مرحوم فاروقی کی ولادت 1948عیسوی میں لکھنؤ میں ہوئی اور اب وفات بھی لکھنؤ میں ہی ہوئی ہے ۔نماز جنازہ ندوۃالعلماء میں بعد نماز عصر ہوگی۔مولانا مرحوم دیوبندی جید عالم دین، مبلغ اور ملی قائد تھے، جنھوں نے سات سال تک متحدہ جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی اور تیرہ سال تک جمعیۃ علماء ہند (الف) کے ناظم عمومی کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اخیر میں انھوں نے جمعیۃ علماء ہند (الف) کے نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

مولانا نے مظاہر علوم سہارنپور اوردار العلوم دیوبند میں مولانا سید فخر الدین احمد ، اور مولانا محمد یونس جونپوری سے تعلیم حاصل کی۔جب کہ ابتدائی تعلیم لکھنؤ میں حاصل کی اور عربی کی تعلیم جامعہ حسینیہ محمدی، لکھیم پور میں حاصل کی۔بعد ازاں انھوں نے مظاہر علوم سہارنپور کا سفر کیا اور وہاں داخلہ لے کر 1966ء تا 1988ء تین سال وہاں رہ کر شرح جامی، سے مشکوٰۃ المصابیح تک کی کتابیں پڑھیں۔ مظاہر علوم میں مولاناشیخ محمد یونس جونپوری سے فیض حاصل کرتے ہوئے تعلیم حاصل کی۔ زمانۂ طالب علمی میں ناظم مظاہر علوم مولانامحمد اسعد اللہ رامپوری سے علمی اور روحانی طور پر استفادہ کیا۔بعد ازاں انھوں نے مولانا شیخ محمد زکریا کاندھلوی کے فرزند و جانشین پیرمحمد طلحہ کاندھلوی سے بیعت کی اور سلسلۂ چشتیہ میں ان کے خلیفہ و مُجاز ہوئے۔

مظاہر علوم کے بعد انھوں نے دار العلوم دیوبند کا رخ کیا اور 1969ء میں وہیں سے فارغ التحصیل ہوئے۔ انھوں نے صحیح البخاری مولانا فخر الدین احمد مرادآبادی سے پڑھی۔

مرحوم مولانا کی عملی زندگی عجیب وغریب تھی اہل سنت والجماعت اور صحابہ کے خلاف ایک بھی جملہ آپ برداشت نہیں کرتے تھے۔رافضیت اور شیعیت میں اختصاص رکھتے تھے۔وہ دار المبلغین لکھنؤ کے مہتمم تھے، جسے انھوں نے دفاع اسلام اور حقانیت اسلام کی اشاعت کے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا۔ وہ اس وقت مجلس تحفظ ناموس صحابہ، لکھنؤ کے صدر تھے۔ 1998ء سے وہ لکھنؤ میں سالانہ جلوس مدحِ صحابہ منعقد کرتے آ رہے تھے، جس میں ہزاروں مسلمان شریک ہوتے رہے ہیں۔

 متحدہ جمعیۃ علماء ہند کے دسویں ناظم عمومی کی حیثیت سے بھی آپ نے خدمات انجام دیں۔

مولانانے 1998ء سے تا وفات مجلس شوریٰ دار العلوم دیوبند کے رکن کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔اس کے علاوہ ندوۃ العلماء کے رکن،دینی تعلیم ٹرسٹ، لکھنؤ کے چیئرمین،اور امیرِ شریعت، اترپردیش تھے۔مولانا کے انتقال پر مظاہر علوم کے مولانا محمد عثمان ، سید احمد ہاشمی،دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابولقاسم نعمانی بنارسی، مولانا شاہ عالم گورکھپوری، دارالعلوم وقف کے مہتمم مولانا محمد سفیان قاسمی سمیت ملک بھر کے علماء اور ائمہ نے گہرے رنج والم کا اظہار کیا ہے۔

Related posts

جلد ملنے والا ہے جماعت اسلامی کو نیا امیر، جانئے کیسا ہے جماعت اسلامی میں امیر کے انتخاب کا طریقہ

Hamari Duniya

دیپیکا پادوکون کے نام ایک اور اعزاز

Hamari Duniya

صدر جمہوریہ دروپدی مرمو سمیت کئی بڑی شخصیات نے اپنا ووٹ ڈالا

Hamari Duniya